فقہیات ۔خواتین کی نمازہ جنازہ میں شرکت

*فقہیات*

*== خواتین کی نماز جنازہ میں شرکت ==*

شریعت مطہرہ نے مرد و عورت کے لئے الگ الگ دینی ذمہ داریاں مقرر کیں ہیں جس کا تقاضہ یہ ہے کہ نظامِ زندگی میں اعتدال رہے، بعض امور کا تعلق مرد و عورت دونوں سے ہے اور بعض میں دونوں کی ذمہ داریاں جدا جدا ہیں، نمازہ جنازہ بھی انہی امور میں سے ہے جس کی ذمہ داری صرف مردوں کو سونپی گئی ہے اور اس میں عورت پر یہ فریضہ لازم نہیں اور پھر یہ فرائض دینیہ میں فرض کفایہ ہے، اس لئے چند مسلمان مردوں کے ادا کرنے سے فریضہ ساقط ہوجاتا ہے، اور جہاں تک خواتین کا تعلق ہے تو ان پر اپنے خاوند کے وصال سے ہی عدت کا حکم ہے، چنانچہ شریعت نے خواتین کو اپنے شوہروں کے جنازہ پڑھنے اور تدفین میں شرکت کا مکلف نہیں بنایا، تاہم اگر کوئی عورت نماز جنازہ میں شریک ہوجائے تو شریعت مطہرہ اس کے کیا احکام ہیں؟ اس کی بابت *شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم* کی ایک اہم تحریر نگاہ سے گزری اور ساتھ میں ایک ویڈیو کلپ بھی موصول ہوا جس میں مسئلہ ہذا کی *برادرم حضرت مفتی محمد زبیر صاحب حفظه اللہ* نے عمدہ توضیح فرمائی، چنانچہ ان حضرات کے ارشادات کو حدیث و فتاوی کی کتب سے مراجعت کرکے پیش کیا جارہے ہیں۔ (✍ : سفیان بلند)

*1- حضرت شیخ الاسلام مولانا مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم کی تحریر*
اطلاعات کے مطابق ایک معروف خاتون کی نماز جنازہ اس طرح پڑھی گئی ہے کہ صفیں مردوں اور عورتوں سے مخلوط تھیں، اور ایک ہی صف میں مرد اور عورتیں ایک ساتھ کھڑے ہوئے تھے، شرعی اعتبار سے یہ ایک افسوسناک امر ہے کہ نماز جنازہ جیسی عبادت کی ادائیگی میں شرعی احکام کا لحاظ نہیں رکھا گیا، اول تو کسی کھلے میدان میں خواتین کا نماز جنازہ کے لئے جانا بذاتِ خود درست نہیں ہے اور صحیح بخاری کی صحیح حدیث میں خواتین کو جنازہ کے ساتھ جانے سے منع فرمایا گیا ہے، پھر اگر خواتین کسی وجہ سے شریک ہوں تو مردوں کی صف میں ان کا کھڑا ہونا بالکل ناجائز ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں نماز جنازہ میں خواتین کی شرکت نہیں ہوتی تھی اور فرض نمازوں میں اگر فجر یا عشاء کے وقت خواتین جماعت میں شریک ہوتیں تو اس بات کا اہتمام کیا جاتا تھا کہ ان کی صفیں مردوں کے پیچھے بالکل الگ ہوں اور کسی قسم کا اختلاط نہ ہو، لہذا مخلوط صفیں بناکر نماز جنازہ پڑھنا کسی طرح جائز نہیں ہے۔ *(محمد تقی عثمانی)*

*2- خواتین کی جنازہ میں شرکت کی ممانعت*
امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب صحیح بخاری میں یہ حدیث نقل فرمائی ہے کہ *عَنْ أُمِّ الْهُذَيْلِ عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ نُهِينَا عَنْ اتِّبَاعِ الْجَنَائِزِ وَلَمْ يُعْزَمْ عَلَيْنَا*
حضرت ام ہذیل، ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا کہ ہم لوگوں کو جنازوں کے پیچھے جانے سے روکا گیا اور ہم پر اس کو ضروری خیال نہیں کیا گیا۔
فائدہ : عورتیں  نمازِ  جنازہ  میں فتنے کی وجہ سے شرکت نہیں کرسکتیں البتہ اگر ساتھ کھڑی ہوگئیں تو  نماز  درست ہوجائے گی۔
*١- لما فی البحر الرائق (۱۸۰/۲)*
وأما مایفسدھا فما أفسد الصلاۃ أفسدھا إلا المحاذۃ… 
*٢- وفی الجوھرة النیرۃ (۱۳۰/۱)*
وان قامت امرأۃ الی جانب رجل لم تفسد علیہ صلاته
*٣- وفی حاشیة الطحطاوی علی مراقی الفلاح(٢٤٦)*
(ولا یحضرن الجماعات لمافیه من الفتنة والمخالفة) (قولہ ولا یحضرن الجماعات) لقوله ﷺ : صلاۃ المرأۃ فی بیتها أفضل من صلاتھا فی حجرتها وصلاتھا فی مخدعھا أفضل من صلاتها فی بیتہا۔
قال الطحطاوی تحته: فالأفضل لھا ماکان استرلها لافرق بین الفرائض وغیرھا کالتراویح إلا صلاۃ الجنازۃ فلا تکرہ جماعتهن فیما لأنھا لم تشرع مکررۃ فلو انفردت تفوتہن۔
(قولہ والمخالفة) أی مخالفة الأمر لان اﷲ تعالی أمرھن بالقرار فی البیوت فقال تعالی وقرن فی بیوتکن وقال ﷺ : بیوتهن خیر لھن لوکن یعلمن
*٤- وفی الدرالمختار (۵٦٦/۱)* (ویکرہ حضورھن الجماعة) ولو لجمعة وعید و وعظ (مطلقا) ولو عجوزا لیلا (علی المذھب المفتی به لفساد الزمان واستثنی الکمال بحثا العجائز المتفانیة۔ (نجم الفتاوی ٣٧٩/٢)

*3- خواتین کا جماعت کی نماز میں شرکت کی صورت میں پردہ کا حکم*
امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب صحیح بخاری میں یہ حدیث نقل کی ہے کہ *عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کَانَ يُصَلِّي الصُّبْحَ بِغَلَسٍ فَيَنْصَرِفْنَ نِسَاءُ الْمُؤْمِنِينَ لَا يُعْرَفْنَ مِنْ الْغَلَسِ أَوْ لَا يَعْرِفُ بَعْضُهُنَّ بَعْضًا*
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور اکرم ﷺ صبح کی نماز اندھیرے میں پڑھتے تھے، تو مسلمانوں کی عورتیں (ایسے وقت) لوٹ جاتی تھیں کہ اندھیرے کے سبب سے پہچانی نہ جاتی تھیں یا (یہ کہا کہ) باہم ایک دوسرے کو نہ پہچانتی تھیں۔
فائدہ: حضور اکرم ﷺ کے زمانے میں خواتین پردہ کی حالت میں جماعت میں شرکت کرتی تھیں لیکن بعد میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے فتنہ کے اندیشہ کے پیش نظر خواتین کے لئے جماعت میں شرکت کو پسند نہیں کیا، چنانچہ فقہاء کرام فرماتے ہیں کہ خواتین کے لئے پنج وقتہ نماز کی جماعت میں شرکت کرنا کسی فضیلت کا باعث نہیں ہے، ان کے لئے گھروں کی کوٹھری میں تنہا نماز پڑھنا جماعت کی نماز سے زیادہ افضل ہے اور خاص طور پر اس زمانہ میں خواتین کا پنج وقتہ نماز باجماعت پڑھنے کے لئے مساجد میں جانا مکروہ اور سخت فتنہ کا باعث ہے، اگرچہ جماعت پردہ کے اہتمام کے ساتھ ہی کی جاتی ہو تب بھی ممنوع ہے اور حنفی مسلک میں عورتوں کو باجماعت نماز کے لئے مسجد میں آنے جانے کی کسی طرح کی گنجائش نہیں ہے۔
(مستفاد: فتاوی محمودیہ ڈابھیل ٦؍٤٧٢-۷؍۲۷۹)
*فی الدر المختار مع شامي، کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، زکریا ۲/ ۳۰۷، کراچی)*
ویکرہ حضورهن الجماعة، ولو لجمعة، وعید، ووعظ مطلقا، ولو عجوزا لیلا علی المذهب المفتی به لفساد الزمان۔ (فتاوی قاسمیہ ٣١٢/٧)

*4- خواتین کے شرکتِ جنازہ کی صورت میں صف کی ترتیب*
امام مسلم نے صحیح مسلم شریف میں روایت نقل کی ہے کہ *وعَنْ اَبِیْ مَسْعُوْدِ الْاَنْصَارِیِ رضی اللہ عنه قَالَ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیه وسلم یمْسَحُ مَنَاکِبَنَا فِی الصَّلٰوۃِ وَیقُوْلُ اسْتَوُوْا وَلَا تَخْتَلِفُوْا فَتَخْتَلِفَ قُلُوْبُکُمْ لِیلِنِیْ مِنْکُمْ اُوْلُوا الْاَحْلَامِ وَالنُّھٰی ثُمَّ الَّذِین یلُوْنَھُمْ ثُمَّ الَّذِین یلُوْنَھُمْ قَالَ اَبُوْ مَسْعُوْدٍ فَاَنْتُمُ الْیوْمَ اَشَدُّ اِخْتِلَافًا*
حضرت ابومسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ (جب نماز پڑھنے کا ارادہ فرماتے تو) ہمارے کندھوں پر اپنا دست مبارک رکھ کر فرماتے تھے کہ برابر رہو مختلف (یعنی آگے پیچھے کھڑے) نہ ہو ورنہ تمہارے دلوں میں اختلاف پیدا ہو جائے گا اور تم میں سے جو لوگ عاقل و بالغ ہوں وہ میرے قریب رہیں پھر وہ لوگ جو ان کے قریب ہوں اور پھر وہ لوگ جو ان کے قریب ہوں۔
حضرت ابومسعود رضی اللہ عنہ نے (لوگوں کے سامنے یہ حدیث بیان کر کے) فرمایا کہ آج تم لوگوں میں اختلاف بہت زیادہ ہے۔
فائدہ : صاحب مظاہر حق اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں کہ حدیث (کے دوسرے جزو) میں صف کی ترتیب یہ بتائی گئی ہے کہ میرے قریب وہ لوگ کھڑے ہوں جو صاحب عقل و فہم اور بالغ ہوں، یعنی پہلی صف میں ان لوگوں کو کھڑا ہونا چاہیے جو بالغ اور عقل و فہم کے مالک ہوں تاکہ وہ نماز کی کیفیت اور اس کے احکام دیکھیں اور یاد کریں اور پھر امت کے دوسرے لوگوں کو ان کی تعلیم دیں، پھر دوسری صف میں وہ لوگ کھڑے ہوں جو ان کے قریب ہوں یعنی مراہق (جو بالغ ہونے کے قریب ہوں) اور لڑکے اور پھر تیسری صف میں وہ کھڑے ہوں جو ان کے قریب ہوں یعنی مخنث (جن میں مرد و عورت دونوں کی علامتیں پائی جائیں) پھر ان کے بعد آخر میں عورتوں کی صف قائم کی جائے، یہاں حدیث میں عورتوں کی صف کے بارے میں ذکر نہیں کیا گیا ہے کیونکہ یہ متعین ہے کہ آخر میں عورتوں ہی کی صف ہوتی ہے۔

○ امام ابوداؤد نے اپنی سنن میں یہ روایت نقل کی ہے کہ *عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْرُ صُفُوفِ الرِّجَالِ أَوَّلُهَا وَشَرُّهَا آخِرُهَا وَخَيْرُ صُفُوفِ النِّسَاءِ آخِرُهَا وَشَرُّهَا أَوَّلُهَا*
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ مردوں کے لئے سب سے بہتر صف پہلی صف ہے اور سب سے بری صف، آخری صف ہے (کیونکہ وہ عورتوں کی صف  سے متصل ہوتی ہے) اور عورتوں کے لئے بہتر صف ان کی آخری صف ہے اور بری صف ان کی پہلی صف ہے (کیونکہ وہ مردوں کے قریب ہے)
فائدہ: اس حدیث سے یہ بات ثابت ہوئی کہ اگر امام کے پیچھے مرد و عورت دونوں مقتدی کی حیثیت سے نماز میں شامل ہوں تو مردوں کو اپنی صف آگے قائم کرنی چاہیئے اور عورتوں کی صف  پیچھے رکھنی چاہیئے، اس کی تائید صحیح بخاری کی روایت میں ذکر کردہ اس واقعہ سے بھی ہوتی ہے کہ *عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رَضِيَ الله عَنْهُ قَالَ صَلَّی النَّبِيُّ صَلَّی الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَيْتِ أُمِّ سُلَيْمٍ فَقُمْتُ وَيَتِيمٌ خَلْفَهُ وَأُمُّ سُلَيْمٍ خَلْفَنَا*
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے ام سلیم رضی اللہ عنہا  کے گھر میں ایک دن نماز پڑھی، تو میں اور ایک لڑکا آپ ﷺ کے پیچھے کھڑا ہوا اور  ام سلیم  ہمارے پیچھے (کھڑی ہوئیں)

*حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی رحمہ اللہ* لکھتے ہیں کہ جنازہ مردوں کو پڑھنا چاہیئے، عورتوں کو نہیں، تاہم اگر جماعت کے پیچھے عورتیں کھڑی ہوجائیں تو نماز ان کی بھی ہوجائے گی۔(فتاوی یوسفی)

*ناشر : دارالریان کراتشی*

Comments

Popular posts from this blog

تعویز کے احکام ومسائل