حرمت مصاہرت کے چند اہم مسائل

*فقہیات*

*==حرمت مصاہرت کے چند اہم مسائل ==*

کئی دنوں سے کچھ رفقاء کرام حرمت مصاہرت کے مسائل پوچھ رہے تھے ، چند مسائل مختلف فتاوی کی روشنی میں تلخیص کے ساتھ پیش خدمت ہیں ، ہر مسئلہ کے ساتھ کتاب کا حوالہ موجود ہے، اس تلخیص میں اگر کوئی علمی و فقہی سقم رہ گیا ہو تو مطلع فرمائیں تاکہ درست کردیا جائے، مزید وضاحت کے لئے کسی دارالافتاء رجوع فرمائیں ، جزاکم اللہ خیرا

1-ایک آدمی کو شہوت پہلے موجود تھی، تو شہوت کا بڑھنا شرط ہے، شہوتِ لمس وہ معتبر ہے جس سے اس کا آلہ تناسل منتشر ہو، اگر ذکر پہلے سے منتشر ہے اور لمس کی وجہ سے انتشار زیادہ ہوگیا ہو، اب اس نے غور کیا کہ لمس کی وجہ سے انتشار بڑھا یا نہیں؟ تو اس کو شبہ نظر آیا، تو ایسی صورت میں حدیث نبوی کو سامنے رکھے کہ ”دع ما یریبک الی ما لا یریبک“ جب شہوت کا وجود متیقن ہے اور ازدیادِ شہوت میں شبہ ہے تو حلال و حرام کے درمیان اشتباہ ہوگیا، اور مشتبہ کا ترک بھی اسی طرح واجب ہے جس طرح حرام کا ترک واجب ہے ، اس کے علاوہ اقرب یہ ہے کہ انتشار آلہ بھی تصورِ لمس سے ہوا ہوگا، اور لمس سے اس میں زیادتی اقرب الی القیاس ہے، اس لئے نفس کی تاویلات لائق اعتبار نہیں، حرمت ہی کا فتویٰ دیا جائے گا۔( آپ کے مسائل اور ان کا حل )

2- اگر کوئی شخص اپنے بیٹے کی بیوی سے زنا کرے تو وہ اس کے بیٹے پر حرام ہوجاتی ہے ، ایسی صورت میں شوہر پر واجب ہے کہ وہ اپنی بیوی سے یہ کہہ کر فورا الگ ہوجائے کہ میں نے تمہیں چھوڑدیا (فتاوی عثمانی)

3- سالی سے زنا کرنے پر حرمت مصاہرت ثابت نہیں ہوتی البتہ ایسے شخص نے سخت گناہ کا ارتکاب کیا ہے ، جس پر اسے توبہ استغفار کرنا چاہیئے ، اور آئندہ اس سالی سے پردہ کا اہتمام کرنا چاہیئے ، لیکن اس عمل سے اس کی بیوی کے ساتھ نکاح پر کوئی اثر نہیں پڑا ، وہ بدستور اس کی منکوحہ ہے۔(فتاوی عثمانی)
نوٹ : تاہم سالی کے استبراء یعنی اس کے ایک حیض گزرنے تک یا اس کے حاملہ ہونے کی صورت میں اس کے وضع حمل تک اپنی بیوی سے جماع کرنا جائز نہیں ، بلکہ علیحدہ رہنا واجب ہے۔

4-  اگر کسی حائل کے بغیر شہوت کے ساتھ مس ہو تو اس سے حرمت مصاہرت ثابت ہوتی ہے اور شہوت کے لئے آلہ تناسل میں جسمانی طور پر انتشار پیدا ہونا شرط ہے ، محض انتشار کے شبہ سے حرمت مصاہرت ثابت نہیں ہوتی ۔(فتاوی عثمانی)

5- حرمت مصاہرت کی وجہ سے جب کسی کی بیوی اس پر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے حرام ہوگئی تو دوبارہ نکاح کرکے بھی حلال نہیں ہوگی، اس کوطلاق دیدے یاکہہ دے کہ میں نے اس کوچھوڑ دیا، اس کے بعد اگر مدخولہ ہے تو عدت گذار کر اور اگر غیر مدخولہ ہے تو بغیر عدت گذارے، اس کانکاح دوسرے شخص سے جائز ہوگا۔(فتاوی محمودیہ)

5- حرمت مصاہرت کے لئے ایک طرف سے شہوت کافی ہے۔
کما فی الدرالمختار : وتکفی الشہوۃ من احدہما قال الشامی: ہٰذا یظہر فی المس۱ھ (فتاوی محمودیہ)

6- حرمت مصاہرت کے اقرار سے رجوع کرنا شرعا معتبر نہیں ، اسی طرح اگر عورت بھی اقرار کرے اور رجوع کرلے تو اس کے رجوع معتبر نہ ہوگا اگرچہ اقرار کا حجت قاصرہ ہونا مسلّ م ہے، لیکن مُقِرّہ کے حق میں اس اقرار کی وجہ سے حرمت ثابت ہوگی، یہ کہنا کہ عورت کے قول کا سرے سے اعتبار نہیں بالکل غلط اور لغو ہے ،کتب فقہ میں جزئیات واضحہ مصرحہ اس کی تردید کرتی ہیں، اسی طرح اقرار سے رجوع اور اپنے نفس کی تکذیب ایسے مسائل میں قضاء ً معتبر نہیں۔(فتاوی محمودیہ)
کما فی الفتاوی الہندیہ کوئتہ
(۱ /۲۷۵) القسم الثانی المحرمات بالصھریۃ ومما یتصل بذالک :
لو أقر بحرمۃ المصاھرۃ یؤاخذ بہ ویفرق بینھما وکذالک اذا اضاف ذٰلک الی ماقبل النکاح بان قال لامرأتہ کنت جامعت امک قبل نکاحک یؤاخذبہ ویفرق بینھما، والاصرار علی ھذا الاقرار لیس بشرط حتی لو رجع عن ذٰلک وقال کذبت فالقاضی لایصدقہ الخ

7- حرمت مصاہرت حلالہ سے ختم نہیں ہوتی بلکہ بیوی ہمیشہ کے لئے حرام ہوجاتی ہے ، کوئی صورت اس کے حلال ہونے کی نہیں، اس سے متارکت واجب ہے۔(فتاوی محمودیہ)
کما فی الدر المختار : وبحرمۃ المصاہرۃ لایرتفع النکاح حتی لایحل لہا التزوج باخر الا بعد المتارکۃ وانقضاء العدۃ و الوطء بہا لایکون زنا۱ھ

8-  شرعاً ثبوت زنا کے لئے چار عادل مردوں کی شہادت ضروری ہے، اگر اس میں کمی ہوتو گواہوں پر حد قذف جاری ہوتی ہے اورخود مدعی پربھی ، اس باب میں عورت کی شہادت قطعاً معتبر نہیں، اگرشاہد بعد شہادت رجوع کرلیں تب بھی ان پرحدقذف جاری ہوگی، یہ سب باتیں اسلامی حکومت کی ہیں ، یہ سب تفصیل قضاء ً ہے لیکن دیانۃً  حرمت مصاہرت ثابت ہونے کیلئے چار گواہوں کی ضرورت نہیں بلکہ اگرصرف ایک گواہ کے کہنے سے صدق کا غلبہ ظن حاصل ہوجائے تب بھی حرمت مصاہرت ثابت ہوجاتی ہے اوریہ بھی ضروری نہیں کہ قاضی حکم یا مفتی کے سامنے گواہی دی جائے یا بصیغۂ أشہد بیان کیاجائے، بلکہ یہ قبیل اخبار سے ہے اور حرمت مصاہرت کے لئے حقیقی زنا شرط نہیں، بلکہ یہ حرمت مس بالشہوۃ اور تقبیل بالشہوۃ سے بھی ثابت ہوتی ہے۔ (فتاوی محمودیہ)

واللہ سبحانہ و تعالٰی اعلم

Comments

Popular posts from this blog