تعویز کے احکام ومسائل

*فقہیات*

*=== تعویذ کے احکام و مسائل ===*

○ عَنْ اَبِیْ خَزَامَةَ عَنْ اَبِیْه قَالَ قُلْتُ یَا رَسُوْلَ اﷲِ اَرَاَیْتَ رُقًی نَسْتَرْقِیْھَا وَدَوَآءً نَتَدَاوٰی بِه وَتُقَاۃً نَتَّقِیْھَا ھَلْ تَرُدُّ مِنْ قَدْرِ اﷲِ شَیْئًا قَالَ ھِیَ مِنْ قَدْرِ اﷲِ ۔ (رواہ احمد ترمذی وابن ماجة)

حضرت ابی خزامہ ( ابی خزامہ تابعی ہیں ان کے والد کا نام عمیر ہے جو صحابی ہیں اور جن سے ابو خزامہ روایت کرتے ہیں، ابی خزامہ سے زہری روایت کرتے ہیں) اپنے والد مکرم سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ میں نے حضور اکرم ﷺ سے عرض کیا یا رسول اللہ ! وہ عملیات جن کو ہم (شفاء کے لئے) پڑھواتے ہیں اور وہ دوائیں جن کو ہم (حصول صحت کے لئے) استعمال کرتے ہیں اور وہ چیزیں جن سے ہم حفاظت حاصل کرتے ہیں (مثلاً ڈھال اور زرہ وغیرہ ان کے بارے میں مجھے بتائیے کہ کیا یہ سب چیزیں نوشتہ تقدیر میں کچھ اثر انداز ہو جاتی ہیں؟ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ یہ چیزیں بھی نوشتہ تقدیر ہی کے مطابق ہیں۔

○ عن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : إذا فزع أحدكم في النوم فليقل : أعوذ بكلمات الله التامات من غضبه وعقابه وشر عباده ومن همزات الشياطين وأن يحضرون فإنها لن تضره، وكان عبد الله بن عمرو يعلمها من بلغ من ولده ومن لم يبلغ منهم كتبها في صك ثم علقها في عنقه. رواه أبو داود والترمذي وهذا لفظه

حضرت عمرو بن شعیب اپنے باپ (حضرت شیعب) سے اور وہ اپنے دادا (یعنی حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ) سے روایت کرتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی شخص نیند میں ڈرے تو اسے چاہئے کہ یہ کلمات پڑھے:
*أعوذ بکلمات اللہ التامات من غضبہ وعقابہ وشر عبادہ ومن ہمزات الشیاطین وان یحضرون*
(میں اللہ کے پورے کلمات کے ذریعہ پناہ مانگتا ہوں اس کے غضب سے اس کے عذاب سے اس کے بندوں کی برائی سے شیطان کے وسوسوں سے اور اس بات سے کہ شیطان میرے پاس آئیں)
لہٰذا ان کلمات کے کہنے والے کو شیطان ہرگز کوئی ضرر نہیں پہنچائے گا چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ ان کلمات کو اپنی اولاد میں سے ہر اس شخص کو سکھاتے جو بالغ ہوتا اور ان کی اولاد میں جو نابالغ ہوتے ان کلمات کو کاغذ کے ٹکڑے پر لکھ کر ان کے گلے میں ڈال دیتے۔ 

فائدہ: مطلب یہ ہے کہ جس طرح بیماری وغیرہ امر مقدر ہیں، اسی طرح ان کا علاج اور ان سے حفاظت کے اسباب بھی نوشتہ تقدیر ہی کے مطابق ہوتے ہیں یعنی جس طرح کسی آدمی کے مقدر میں کوئی بیماری لکھ دی گئی ہے تو اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی نوشتہ تقدیر بن چکا ہے کہ یہ بیمار فلاں وقت میں اپنی بیماری کا علاج کرے گا اور یہ بھی طے ہو چکا ہے کہ اس علاج و معالجہ سے اسے فائدہ ہوگا یا نہیں، اگر فائدہ ہونا لکھا ہے تو فائدہ ہو جائے گا اور فائدہ ہونا نہیں لکھا ہے تو نہیں ہوگا، اس لئے اگر کسی بیمار نے اپنی بیماری کا علاج کیا اور اسے فائدہ نہیں ہوا تو اسے سمجھنا چاہیے کہ تقدیر میں شفا نہیں لکھی تھی، لہٰذا معلوم ہوا کہ بیماری میں علاج کرنا یا اپنی حفاظت کے لئے خارجی اسباب کا سہارا لینا نوشتہ تقدیر کے خلاف نہیں ہے۔

تعویذ  گنڈے اور جھاڑ پھونک کا مسئلہ یہ ہے کہ  وہ تعویذ جائز ہے جو قرآن کی آیتوں اور احادیث کی دعاؤں کے مطابق ہوں، اسی طرح وہ جھاڑ پھونک کرنا اور دم کرنا اگر اسمائے ربانی و صفات الہٰی اور قرآن و حدیث کے مطابق ہو نیز ان کو موثر حقیقی سمجھنے کا عقیدہ بھی نہ ہو تو درست ہے، تعویذ اور رقیہ میں عقیدہ یہ ہو کہ شفا و صحت کا عطا کرنے والی ذات اللہ تعالی کی ہے اور یہ صرف اسباب و تبرک کے درجہ میں ہیں تو ایسی صورت میں یہ چیزیں جائز ہوں گی، اگر اس کے برخلاف ہو کہ جھاڑنا پھونکنا اور تعویذ گنڈے غیر شرعی ہوں یعنی اس میں غیر اللہ کی مدد لی جاتی ہو تو یہ حرام ہوگا۔ (مستفاد: مظاہر حق)

*1- تعویذ کی شرعی حیثیت*
تعویذ  گنڈے کا اثر ہوتا ہے اور ضرور ہوتا ہے، مگر ان کی تأثیر بھی باذن اللہ ہے، کسی کو نقصان پہنچانے کے لئے جو تعویذ گنڈے کئے جاتے ہیں ان کا حکم تو وہی ہے جو جادو کا ہے کہ ان کا کرنا اور کرانا حرام اور کبیرہ گناہ ہے، بلکہ اس سے کفر کا اندیشہ ہے، اس کی مثال ایسی ہے کہ کوئی شخص کسی پر گندگی پھینک دے تو ایسا کرنا تو حرام اور گناہ ہے اور یہ نہایت کمینہ حرکت ہے، مگر جس پر گندگی پھینکی گئی ہے، اس کے کپڑے اور بدن ضرور خراب ہوں گے اور اس کی بدبو بھی ضرور آئے گی، پس کسی چیز کا حرام اور گناہ ہونا دوسری بات ہے اور اس گندگی کا اثر ہونا فطری چیز ہے، تعویذ اگر کسی جائز مقصد کے لئے کیا جائے تو جائز ہے، بشرطیکہ اس میں کوئی گناہ اور شرک کی بات نہ لکھی ہو۔

*2- تعویذ  اور رقیہ کے جواز کی شرائط*
١- کسی جائز مقصد کے لئے ہو، ناجائز مقاصد کے لئے نہ ہو۔

٢- اس کے الفاظ کفر و شرک پر مشتمل نہ ہوں اور اگر وہ ایسے الفاظ پر مشتمل ہوں جن کا مفہوم معلوم نہیں تو وہ بھی ناجائز ہے۔
اس لئے بہتر یہی ہے کہ وہ آیاتِ قرآنیہ، اسمائے ربانیہ یا ادعیہ نبویہ وغیرہ پر مشتمل ہو اور عربی زبان میں ہو یا اس کے علاوہ ایسی زبان میں ہو جو معلوم المراد ہو۔

۳- یہ عقیدہ ہو کہ یہ تعویذ مؤثر بالذات نہیں ہے (اس کی حیثیت صرف دوا کی ہے) مؤثر بالذات صرف اللہ رب العزت ہیں۔
○ وقال ابن حجر: وقد أجمع العلماء علی جواز الرقی عند اجتماع ثلاثة شروط أن یکون بکلام اللہ تعالی أو بأسمائه وصفاته وباللسان العربی أو بما یعرف معناہ من غیرہ وأن یعتقد أن الرقیة لا تؤثر بذاتہا بل بذات اللہ تعالی (فتح الباري: الطب والرقی بالقرآن والمعوذات: ۵۷۳۵)

*3- غیر شرکیہ تعویذ کی اجازت*
حضور اکرم ﷺ نے صراحةً ایسے رقیہ اور تعویذ کی اجازت دی ہے جس میں شرک نہ ہو۔
○ عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِکٍ ، قَالَ: کُنَّا نَرْقِی فِی الْجَاہِلِیَّةِ، فَقُلْنَا: یَا رَسُولَ اللَّہِ، کَیْفَ تَرَی فِی ذَلِکَ؟ فَقَالَ: اعْرِضُوا عَلَیَّ رُقَاکُمْ، لَا بَأْسَ بِالرُّقَی مَا لَمْ یَکُنْ فِیہِ شرکٌ، رواہ مسلم (مشکاة: ۲/ ۳۸۸)

*4- حرز ابی دجانہ*
حضرت ابودجانہ  رضی اللہ عنہ کے گھر میں ایک جن تھا جو اُن کو پریشان کرتا تھا، یہ حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوات و کاغذ منگوا کر اس پر کچھ لکھوایا اور  ابودجانہ  رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ اس کو گھر میں لٹکادو، جب انھوں نے لٹکایا تو ایک چیخ سنی کہ اے ابودجانہ! تو نے ہمیں جلادیا، امام سیوطی نے اس حدیث کو خصائص کبری میں نقل کیا ہے۔ (فتاویٰ محمودیہ: ۱۷/ ۱۰٤، ط: ڈابھیل، گجرات)
بعض اہل علم فرماتے ہیں کہ اس حرز ابی دجانہ کی اسنادی حیثیت پر کلام ہے، چنانچہ اس کو بطور تعویذ لکھنے کی گنجائش ہے، تاہم حضور اکرم ﷺ کی طرف منسوب کرنے میں احتیاط کیا جائے، کتب فتاوی میں بھی اس کو بطورِتعویذ کے ذکر کیا گیا ہے۔

○ وأخرج البیہقي عن رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم: فَقَالَ لِعَلِیِّ رضي اللہ عنہ اکْتُبْ: بِسْمِ اللہِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ. ہَذَا کِتَابٌ مِنْ مُحَمَّدٍ رَسُولِ رَبِّ الْعَالَمِینَ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، إِلَی مَنْ طَرَقَ الدَّارَ مِنَ الْعُمَّارِ وَالزُّوَّارِ وَالصَّالِحِینَ، إِلَّا طَارِقًا یَطْرُقُ بِخَیْرٍ یَا رَحْمَنُ․ أَمَّا بَعْدُ: فَإِنَّ لَنَا وَلَکُمْ فِی الْحَقِّ سَعَةً، فَإِنْ تَکُ عَاشِقًا مُولَعًا، أَوْ فَاجِرًا مُقْتَحِمًا أَوْ رَاغِبًا حَقًّا أَوْ مُبْطِلًا، ہَذَا کِتَابُ اللہِ تَبَارَکَ وَتَعَالَی یَنْطِقُ عَلَیْنَا وَعَلَیْکُمْ بِالْحَقِّ، إِنَّا کُنَّا نَسْتَنْسِخُ مَا کُنْتُمْ تَعْمَلُونَ وَرُسُلُنَا یَکْتُبُونَ مَا تَمْکُرُونَ، اتْرُکُوا صَاحِبَ کِتَابِی ہَذَا، وَانْطَلِقُوا إِلَی عَبَدَةِ الْأَصْنَامِ، وَإِلَی مَنْ یَزْعُمُ أَنَّ مَعَ اللہِ إِلَہًا آخَرَ لَا إِلَہَ إِلَّا ہُوَ کُلُّ شَیْء ٍ ہَالِکٌ إِلَّا وَجْہَہُ لَہُ الْحُکْمُ وَإِلَیْہِ تُرْجَعُونَ یُغْلَبُونَ، حم لَا یُنْصَرُونَ، حم عسق تُفَرِّقَ أَعْدَاء َ اللہِ، وَبَلَغَتْ حُجَّةُ اللہِ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللہِ فَسَیَکْفِیکَہُمُ اللہُ وَہُوَ السَّمِیعُ الْعَلِیمُ․ (دلائل النبوة ما یذکر من حرز أبی دجانة: ۷/۱۱۸)

○ عَنْ یَعْلَی بْنِ مُرَّةَ، عَنْ أَبِیہِ، قَال: سَافَرْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ․․․وَأَتَتْہُ امْرَأَةٌ فَقَالَتْ: إِنَّ ابْنِی ہَذَا بِہِ لَمَمٌ مُنْذُ سَبْعِ سِنِینَ یَأْخُذُہُ کُلَّ یَوْمٍ مَرَّتَیْنِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: أَدْنِیہِ فَأَدْنَتْہُ مِنْہُ فَتَفَلَ فِی فِیہِ وَقَالَ: اخْرُجْ عَدُوَّ اللَّہِ أَنَا رَسُولُ اللَّہِ․ (رواہ الحاکم في المستدرک)

*5- تعویذ لکھنے کی شرعی حیثیت*
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ وغیرہ اور ان کے علاوہ تابعین میں حضرت عطا وغیرہ اس کے جواز کے قائل تھے، اور آج بھی اس پر لوگوں کا عمل ہے، علامہ شامی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
اخْتُلِفَ فِی الِاسْتِشْفَاء ِ بِالْقُرْآنِ بِأَنْ یُقْرَأَ عَلَی الْمَرِیضِ أَوْ الْمَلْدُوغِ الْفَاتِحَةُ، أَوْ یُکْتَبَ فِی وَرَقٍ وَیُعَلَّقَ عَلَیْہِ أَوْ فِی طَسْتٍ وَیُغَسَّلَ وَیُسْقَی. وَعَنْ النَّبِیِّ -صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ- أَنَّہُ کَانَ یُعَوِّذُ نَفْسَہُ قَالَ - رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ -: وَعَلَی الْجَوَازِ عَمَلُ النَّاسِ الْیَوْمَ، وَبِہِ وَرَدَتْ الْآثَارُ․ (شامي: ۹/ ۵۲۳)

واضح رہے کہ تعویذ میں جس طرح پڑھ کر دم کرنا جائز ہے، اسی طرح قرآنی آیات وغیرہ کو کسی کاغذ پر لکھ کر اس کو باندھنا بھی جائز ہے، علامہ سیوطی تحریر فرماتے ہیں:
وأما قول ابن العربي: السُّنة في الأسماء والقرآن الذکر دون التعلیق فممنوع (فیض القدیر: ۶/۱۰۷)
جہاں تک ان احادیث کا تعلق ہے جن میں تمیمہ کو لٹکانے پر شرک کا حکم مذکور ہے، جیسا کہ امام سیوطی کی جامع صغیر میں ہے:
من تعلق شیئا وکل إلیه (فیض القدیر: ٦/ ۱۰۷)
اسی طرح دوسری حدیث میں ہے:
من علق ودعة فلا ودع اللہ ومن علق تمیمة فلا تمم اللہ لہ (فیض القدیر: ٦/ ۱۸۱)
یہ اس صورت پر محمول ہیں جب کہ اسی تعویذ کو نافع وضار سمجھا جائے، جیسا کہ لوگ زمانہ جاہلیت میں اعتقاد رکھتے تھے، یا ان سے مراد ایسے تعویذات ہیں جن میں الفاظ شرکیہ یا ایسے الفاظ ہوں جن کے معانی معلوم نہ ہوں، ان احادیث کی شرح کرتے ہوئے علامہ سیوطی رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں:
أو المراد من علق تمیمة من تمائم الجاهلیة یظن أنہا تدفع أو تنفع فإن ذلک حرام والحرام لا دواء فیہ وکذا لو جہل معناہا وإن تجرد عن الاعتقاد المذکور فإن من علق شیئا من أسماء اللہ الصریحة فہو جائز بل مطلوب محبوب فإن من وکل إلی أسماء اللہ أخذ اللہ بیدہ․ (فیض القدیر: ٦/ ۱۰۷)

*6- اصحاب کہف کے اسمائے گرامی کو بطور تعویذ لکھنا*
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اسماء کہف کے اسماء سے مختلف اشیاء کا علاج منقول ہے۔
○ قال النیشاپوری عن ابن عباس رضي اللہ عنہ أن أسماء الکہف تصلح للطلب والہرب وإطفاء الحریق تکتب في خرقة ویرمی بہا في وسط النار ولبکاء الطفل تکتب وتوضع تحت رأسہ في المہد وللحرث تکتب علی القرطاس وترفع علی خشب منصوب في وسط الزرع․․․ (حاشیة جلالین: ۲٤٣)

خلاصہ یہ ہے کہ قرآن کریم اور ادعیہ نبویہ کا موجب برکت ہونا مسلم ہے اور جائز تعویذ سے سبب کے درجے میں فائدہ اٹھانے کا انکار نہیں کیا جاسکتا کہ یہ حدیث و آثار سے ثابت ہے اور اس کو شرک نہیں کہا جاسکتا۔

(مستفاد: فتاوی یوسفی جلد ١، فتاوی محمودیہ ٢٠٧/٢٥ و فتاوی دارالعلوم دیوبند جواب: ٤٣٧٢٠/ ٥٢٢٦٠/٢٢٠٨٣)

*ناشر: دارالریان کراتشی*

Comments

Popular posts from this blog

*عورت کو شادی کے موقعہ پر دئیے جانے والے مال کے شرعی احکام*

اسلامی تجارت