ڈیجیٹل تصویر ایک لایعنی عمل
# فقہیات #
*== ڈیجیٹل تصویر ؛ ایک لایعنی عمل ==*
جامعہ دارالعلوم کراچی کے اکابرین كا ڈیجیٹل تصویر کی بابت فتوی بہت اہم اور معتدل ہے ، گرچہ اس کی بابت اکابر اہل علم کی دو رائے ہیں مگر اس بات پر سبھی کا اتفاق ہے کہ اس کا بے محابا استعمال اور اس کے ذریعے اپنی سیلفی لینا یا عام کرنا کسی کے ہاں درست نہیں کیونکہ اس میں خود نمائی اور اپنی شہرت کا پہلو ہے ، لایعنی کا ہونا تو یقینی ہے ، اور پھر ہر مباح کام کی کچھ حدود ہوتی ہیں اور اہل علم کو اپنے منصب اور وقار کو سامنے رکھتے ہوئے ہر مباح کام میں لگنا مفید نہیں ، اسی کے تناظر میں سال 2016 کے آغاز میں پوسٹ کردہ ایک تحریر کچھ ترمیم کے ساتھ پیش خدمت ہے ، امید ہے کہ گروپ رفقاء اس سے محظوظ ہونگے :
*علماء کرام اور درد مند اہل اسلام کی خدمت میں ایک گذارش*
آپ حضرات بخوبی واقف ہیں کہ گناہ دو صورتوں میں سرزد ہوتے ہیں...
1) بھول چوک سے چھپ کر یا علانیہ
2) جان بوجھ کر چھپ کر یا علانیہ
پہلی صورت کے گناہ کی کسی حد تک معافی ہے، کہ حدیث مبارک میں ہے کہ *رفع عن امتی الخطأ والنسیان* کہ بھول چوک پر معافی ہے ، لیکن دوسری صورت کے گناہ بغیر توبہ کے معاف نہیں ہوسکتے ، حدیث مبارک میں ہے کہ *کل امتی معافی الا المجاھرین* کہ علانیہ اور جان بوجھ کر کرنا بڑی پکڑ کا ذریعہ ہے۔
اس اہم تمہید کے بعد اصل موضوع کی طرف آتے ہیں اور وہ ہے ڈیجیٹل کیمرے کا استعمال اور اس سے متعلقہ تصویر...
یہاں اس کے ذکر کا مقصد جواز وعدم جواز اور حلت و حرمت کی بحث میں پڑنا نہیں ہے بلکہ اس کے بھیانک نقصانات کی طرف چندآیات واحادیث کی روشنی میں توجہ مبذول کرانا ہے، امید ہے کہ اس پر غور فرمائیں گے ...
1) اسلام کی خوبیوں میں ایک خوبی آدمی کا بے مقصد اور لا یعنی کام کو چھوڑ دینا ہے، ارشاد نبوی ہے کہ *من حسن اسلام المرء ترکہ مالایعنیہ*
2) قرآن کریم نے لایعنی کو لغو اورلہو و لعب سے تعبیر فرمایا ہے اور اس قدر ناپسند کیا کہ اہل جنت کو اس سے پاک کردیا، ارشاد باری ہے کہ *لایسمعون فیہا لغوا ولا تأثیما الا قیلا سلاما سلاما*
اور لایعنی کو اس قدر برا جانا کہ اسے کذب کے ساتھ ذکر فرما کر اشارہ دیدیا کہ جس طرح کذب ایک بدترین عمل ہےتو لایعنی بھی دوسرا بدترین عمل ہے، ارشاد باری ہے کہ *لایسمعون فیہا لغوا ولاکذابا*
پہلی آیت میں تو تأثیم کے ساتھ ذکرفرمایا اور تمام بداعمالیوں سے جدا کرکے لایعنی کی شناعت کو اجاگرکردیا.
اصل فکراس بات کی کرنی ہے کہ فی زمانہ ڈیجیٹل کیمروں کا جو بے مقصد استعمال شروع ہوچکا ہے، جس کی وجہ سے اللہ تعالی کے احکامات کی پرواہ نہیں ہورہی، قرآن کریم کے ارشاد *واذا قرئ القرآن فاستمعوا لہ وأنصتوا لعلکم ترحمون* کی کھلی خلاف ورزی کرکے رحمت الہی سے محرومی ہورہی ہے اور یہ نہیں دیکھا جارہا کہ ہم عبادات میں مشغول ہیں، اللہ تعالی کے گھر میں ہیں، جبکہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تو قرآن وحدیث اس طرح سنتے کہ گویا ان کے سر پر پرندے ہوں، *کأن علی رؤوسھم الطیر* جبکہ ہمارا یہ حال ہے کہ یہاں قرآن کریم کی تلاوت اور خطبہ ہورہا ہے بلکہ بیت اللہ کے طواف کے دوران اس لایعنی میں کام میں لگ کر خشوع وخضوع کا جنازہ نکالا جارہا ہے اور دعاء جس کو مخ العبادة یعنی عبادت کا مغز فرمایا اور اس کے مانگنے کا طریقہ حضور اکرم ﷺ نے امت کو سکھلایا کہ *فان لم تبکوا فتباکوا (رونا نہ آئے تو رونی شکل بناؤ) کی تعلیم دی، دعا جو کہ مؤمن کاہتھیار ہے اس کی تصویر کشی کرکے اس کو بطور نمائش کے بنواکر فیس بک پر عام کیا جارہا ہے، حطیم و ملتزم اور باب کعبہ جس سے چمٹ کر حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم و تابعین واتباعہم اور اولیاء کرام رحمہم اللہ رب کومناتے اورگریہ وزاری کیا کرتے تھے ، آج وہاں کھڑے ہوکر کھلے عام سیلفی کی جارہی ہے اور رب العالمین کے در پر اس کے غضب کو کھلم کھلا دعوت دی جارہی ہے.......
اس صورت میں علماء کرام کی ذمہ داری ہے کہ عام حالات میں مسلمانوں کو عموما اور معلمین کرام، حاجی صاحبان کو خصوصا حکمت و بصیرت کے عمدہ امتزج کے ساتھ سمجھائیں اور معتمرین و حجاج کرام کی تربیت فرمائیں تاکہ اس لایعنی کے فتنہ سے امت کو روکا جاسکے ، ورنہ کل کو یہ جواب دہ ہونگے کہ جب اس طرح کھلے عام نافرمانیاں عروج پر تھیں اور تم لوگوں نے باوجود قدرت کے کیا کیا؟ عوام و خواص کو بتائیں کہ تم دنیا کے ایک معمولی بادشاہ کی دعوت پر اس کے دربار میں جاتے ہو تو بجائے اس کی طرف مکمل متوجہ ہونے کے دائیں بائیں التفات کرو تو تم اس بادشاہ کی نگاہ میں بےادب اور گستاخ شمار نہیں ہوگے؟
قرآن کریم کا ارشاد ہے کہ *أولئک ماکان لہم أن یدخلوھا الاخائفین* اور ہم مسلمان شہنشاہ اعلی کے عظیم دربار بیت اللہ الحرام اور مسجدنبوی علی صاحبہ الصلوة والسلام میں اس کے ہی بلاوے پر التفات نہ کریں اور لایعنی میں مشغول رہیں اور بیت اللہ کے نور سے اپنے دلوں کو منورکرنےکے بجائے خدا نخواستہ اسکی لعنت کے مستحق ٹھہرائے جائیں اور جیسے خالی ہاتھ گئے تھے اسی طرح خالی ہاتھ ہی واپس لوٹائے جائیں، اب تو کم قسمتی سے یہ دیکھنے میں آرہا ہے کہ کوئی بھی دینی مجلس اور اہل علم و مشائخ کی محفل اس تصویر کے لایعنی عمل اور شرک اصغر کے فتنہ سے خالی نہیں اور اس سے بڑھ کر یہ تصویر سازی کا کام دیندار سمجھے جانے والے افراد خود کررہے ہیں، فإلی اللہ المشتکی
آپ حضرات سے التماس ہے کہ آپ ان عوام کو بتلائیں کہ آج امت مسلمہ کی یہ لایعنی کم علمی اور بھول چوک کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ علم کے باوجود اور کھلم کھلا کی جارہی ہے اور اس کے جواز کو اس حد تک آگے بڑھایا جا چکا ہے کہ اس کی وجہ سے عبادت کی روح نکل گئی ہے اور امت اس لایعنی میں پڑ کر مقصد سے ہٹ گئی ہے ، اس لایعنی پربھی مؤاخذہ کئی وجوہ سے ہوسکتاہے (اگرچہ اس کو جواز کا درجہ حاصل ہو ).....
1- اس سے عبادت کا خشوع وخضوع جاتا ہے اور یہ اخلاص کے لئے مانع ہے.
2- بجلی جو اس کی چارجنگ میں لگی ، اس کا اس لایعنی کی وجہ سے ضیاع تبذیر اور اسراف کے حکم میں ہے اور یہ قرآن کریم کے حکم صریح کی کھلی مخالفت ہے کہ ولاتبذر تبذیرا.
3- دوران تصویر و ویڈیو نامحرم خواتین کی تصاویر بھی کیمرہ میں محفوظ ہوجاتی ہیں جو کہ قرآنی حکم *"قل للمؤمنین یغضوا من أبصارهم"* کی خلاف ورزی ہے اور یہ مستقل حرام ہے.
4- اپنی عبادات کی تصاویر بنوانا خود ریاء کاری ہے جو کہ شرک کے قبیل سے ہے، ارشاد نبوی ہے کہ *من صلّی یرائی فقد أشرک ومن صام یرائی فقد أشرک ومن تصدق یرائی فقد أشرک*
اس لایعنی کی وجہ ایک مسلمان کس قدر ایسے گناہوں میں ملوث ہورہا ہے کہ جو تعلیمات نبویہ کی رو سے کبیرہ ہیں.
اس وقت اہل علم کی ذمہ داری ہے کہ مسلمانوں کو حکمت و بصیرت سے سمجھایا جائے کہ ایک مباح چیز کاصحیح استعمال بھی شرعا ضروری ہے ورنہ اس کے غلط استعمال پر بھی ہماری پکڑ ہوسکتی ہے.
یہ چند معروضات اپنی ناقص عقل سے چند نصوص کا سہارا لے کر پیش خدمت ہیں، آپ اپنے علم راسخ کی روشنی میں مزید نصوص کو شامل فرما کر امت کی رہنمائی فرمائیں اور مختلف اسالیب کے ساتھ اس مضمون کو مختلف زبانوں میں پوری دنیا کے مسلمانوں تک پہنچائیں تاکہ *ألا ھل بلغت* کی سنت مبارکہ پر عمل ہو اور حجت تام ہوجائے اورامت اپنے دین و عبادات کی صحیح معنوں میں حفاظت کرے اور صرف نیکی نہ کرے بلکہ نیکی محفوظ کرکے بارگاہ اقدس میں لیکر جانے والی بنے کہ *"من جاء بالحسنة "* والے کے لئے *"فلہ عشرة"* كا فرمان ہے اور ہم اور آپ *الدال علی الخیر کفاعله* کے مصداق بن کر کامیاب ہوجائیں.
وقت کے نباض اور امت کے فقیہ شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہم کے ان الہامی اور تاریخی الفاظ پر اس مضمون کا *ختامہ مسک* کرتا ہوں جو آپ نے اس ڈیجیٹل تصویر کی آخری مجلس میں فرمائے تھے کہ:
"دین کی خدمت کے پیش نظر ضرورت کی بنیاد پر اس کی حلت کے فتوی کو دینا مناسب معلوم ہوتا ہے مگر مستقبل میں اس کے بھیانک نتائج کے تصور سے روح کانپ جاتی ہے ، اس لئے اس کا دروازہ نہ ہی کھولا جائے تو بہتر ہے"
جزاکم اللہ فی الدارین خیرا والسلام مع الاکرام خیر ختام
*ناشر : دارالریان للنشر کراتشی*
Comments
Post a Comment