*عورت کو شادی کے موقعہ پر دئیے جانے والے مال کے شرعی احکام*

 # فقہیات #

*عورت کو شادی کے موقعہ پر دئیے جانے والے مال کے شرعی احکام*

کسی بھی عورت کو شادی کے موقعہ پر مختلف نوعیت اور حیثیت سے مال دیا جاتا ہے، جس کی بابت چند احکامات پیش خدمت ہیں۔ (✍ : سفیان بلند)

*١- والدین کی طرف سے دیا جانے والا سامان اور رقم*
عورت کے والدین کی طرف سے جو جہیز دیا جاتا ہے، اس کی مالک عورت ہی ہوتی ہے اور عورت کی اجازت اور مرضی کے بغیر سسرال والوں کے لئے جہیز کا سامان استعمال کرنا بھی جائز نہیں ہے، ہاں! البتہ اس کی اجازت اور مرضی سے اس کے استعمال کی گنجائش ہے، اسی طرح ماں باپ کی طرف سے دیا ہوا زیور بھی عورت ہی کی ملکیت ہے، اس میں سسرال والوں کا کوئی حق نہیں ہے، شوہر کے انتقال کے بعد اس کے ورثاء عورت کی ملکیت کے شرعا حقدار نہ ہونگے۔

□ جہز ابنته، ثم مات، فطلب بقیة الورثة القسمة، فإن کان الأب اشتری لها في صغرها، أو کبرها وسلم لہا في صحته، فهو لها خاصة۔ (شامي، کتاب النکاح، باب المہر، مطلب في دعوی الأب أن الجہاز عاریة، کراچی ۳/ ۱۵۷، زکریا دیوبند ٤/ ۳۰۹)

□ إن الجهاز ملک المرأۃ، وأنه إذا طلقها تأخذہ کله، وإذا ماتت یورث عنہا۔ (شامي، کتاب الطلاق، باب النفقة، مطلب فیما لو زفت إلیه بلا جہاز، کراچی ۳/ ۵۸۵، زکریا ۵/ ۲۹۹)

*٢- عورت کے والد کا شادی کے موقع پر دی گئی رقم کو اپنے اختیار سے خرچ کرنا*
عورت کی شادی کے موقع پر اعزاء اور متعلقین جو رقوم دیتے ہیں، وہ لڑکی کی شادی کے اخراجات میں کسی بھی طرح کے تعاون کی غرض سے دیتے ہیں اور عرف میں ماں باپ کو مکمل بااختیار سمجھا جاتا ہے، اس لئے ماں باپ اس رقم کو شادی کی کسی بھی ضرورت میں خرچ کرسکتے ہیں اور یہ بھی درست ہے کہ ماں باپ لڑکی سے یہ کہہ دیں کہ فلاں سامان تمہارے فلاں عزیز کی طرف سے ہے، اس میں بھی کوئی حرج نہیں، اس لئے کہ اس طرح کا تعامل لوگوں کے درمیان جاری ہے، بشرطیکہ یہ لین دین نیوتہ کی شکل میں نہ ہو، اس لئے کہ نیوتہ جائز نہیں ہے، اور اگر کوئی سامان لڑکی کے واسطے کسی رشتہ دار نے نامزد کرکے دیا ہے، تو وہ متعین سامان لڑکی ہی کو دے دینا چاہئے، فقہاء کے حسب ذیل جزئیہ سے یہی حکم شرعی واضح ہوتا ہے۔

□ فإن کان من أقرباء الأب، أو من معارفه، فهي للأب، وإن کان من أقرباء الأم أو من معارفہا، فہي للأم ہکذا حکی عن الشیخ الإمام أبي القاسم والفقیه أبي اللیث۔ وفي النوازل: وبه نأخذ، وفي الینابیع: وقال بعضہم: إذا قالوا: للولد، فہي له، وإن لم یقولوا شیئا، فہي للوالد، وکذلک إذا اتخذ ولیمة لزفاف إلی بیت زوجہا، فأهدی أقرباء الزوج أو أقرباء المرأۃ ابنته، وہذا کله إذا لم یقل المہدی أهدیت للأب أو للأم فی المسألة الأولی، وللزوج أو للمرأۃ في المسألة الثانیة، وتعذر الرجوع إلی قول المہدی، أما إذا قال: فالقول قول المہدی؛ لأنه هو المملک، وفي الخانیة: وقال بعضہم في الأحوال کلہا تکون الہبة للوالد؛ لأنه هو الذی اتخذ الولیمة، وقال بعضہم: یکون للولد والاعتماد علی ما قلنا أولا۔ 
(الفتاوی التاتارخانیة کتاب الہبة الفصل الثالث فیما یتعلق بالتحلیل وما یتصل به، زکریا ۱٤/ ٤٤١- ٤٤٠، رقم: ۲۱٦٤٥-۲۱٦٤٦، وهکذا في الشامیة، کتاب الہبة، کراچی ۸/ ٤٥٣، زکریا ۱۲/ ٦٠٥) 

*٣- شوہر کی طرف سے دیا جانے والا مہر*
شوہر کی طرف سے دیا جانے والا مہر عورت کی ملکیت ہے، اس سے اس کو واپس لینا شرعا جائز نہیں، اور اگر شوہر نے اپنی بیوی کو اپنی زندگی میں مہر ادا نہیں کیا تھا تو شوہر کے انتقال کے بعد شوہر کے ترکہ میں سے پہلے بیوی کا مہر ادا کیا جائے گا اور اس کے بعد باقی مال وراثت میں تقسیم ہوگا جس میں عورت کو بیوہ کا حصہ بھی دیا جائے گا۔

□ فلأن المسمی دین في ذمته، وقد تأکد بالموت، فیقضی من ترکتہ۔ (ہدایه کتاب النکاح، باب المہر، أشرفي بک ڈپو ۲/ ۳۳۷)

□ تعلق بترکة المیت حقوق أربعة مرتبة -إلی- ثم تقضی دیونه من جمیع ما بقي من ماله (سراجي)

*٤- سسرال کی طرف سے دئیے جانے والا زیور اور سامان*
جو زیور اور سامان عورت کو شوہر کی طرف سے دیا جاتا ہے، اس زیور اور سامان کے بارے میں حکم یہ ہے کہ اس کا مدار عرف اور رواج پر ہے، اگر کسی برادری کا عرف و رواج یہ ہے کہ ان چیزوں کا مالک شوہر رہتا ہے تو یہ چیزیں شوہر کی رہیں گی، اور ترکہ میں شامل ہوکر سب ورثاء کے درمیان تقسیم ہونگی اور اگر عرف یہ ہے کہ ان چیزوں کا عورت کو مالک بنا دیا جاتا ہے، تو تنہا عورت مالک ہوگی، چنانچہ ہر برادری والے اپنے عرف کو دیکھ لیں اور یہ بھی واضح رہے کہ جس کی ملکیت ہوگی، اسی کے ذمہ اس زیور کی زکوة لازم ہوگی۔

□ وإذا بعث الزوج إلی أہل زوجته أشیاء عند زفافہا منہا دیباج، فلما زفت إلیه أراد أن یسترد من المرأۃ الدیباج لیس له إذا بعث إلیہا علی جهة التملیک۔ الخ (ہندیة الفصل السادس عشر في جہاز البنت، زکریا ۱/ ۳۲۷، جدید زکریا ۱/ ۳۹۳)

□ والمعتمد البناء علی العرف کما علمت۔ (شامي، مطلب في دعوی الأب أن الجہاز عاریة، زکریا دیوبند ٤/ ۳۰۹، کر

اچی ۳/ ۱۵۷)

□ المعروف بالعرف کالمشروط شرعا۔ الخ (قواعد الفقه کراچی ۱۲۵)

□ الثابت بالعرف کالثابت بالنص۔ الخ (عقود رسم المفتي قدیم ۹٤)

□ المعروف عرفا کالمشروط شرعا۔ (الأشباہ والنظائر، قدیم: ۱۵٦)

*٥- شوہر کی طرف سے دیا جانے والا زیور*
اگر شوہر کی طرف سے زیور تملیکاً دیا گیا ہے تو وہ عورت کا ہے اور اگر عاریةً دیا گیا ہے تو وہ بیوی کا نہیں ہے، بلکہ شوہر کا ہے اور اگر دیتے وقت کوئی صراحت تملیک یا عاریت کی نہ کی گئی ہو تو رواج اور عرف کا اعتبار ہوگا۔

□ وکذا ما یعطیہا من ذلک، أو من دراهم، أو دنانیر صبیحة لیلة العرس، ویسمی فی العرف صبحة، فإن کل ذلک تعورف في زماننا کونه ہدیة من المہر۔ (شامي، زکریا ٤/ ۳۰۳، کراچی ۳/ ۱۵۳)

(مستفاد: فتاوی قاسمیہ ١٢ باب الجہاز)

*ناشر : دارالریان کراتشی*

https://Telegram.me/ChainofIslamicInfo

Comments

Popular posts from this blog

تعویز کے احکام ومسائل

اسلامی تجارت

میاں بیوی کا ایک دوسرے کی شرم گاہ کو چوسنا