ٹرین میں نماز کے مسائل
*فقہیات*
*=== ٹرین میں نماز کے مسائل ===*
(✍ : مفتی سفیان بلند)
ریل گاڑی میں عام طور پر سفر کے دوران نماز کے مسائل پیش آتے ہیں، جس کی بابت اکثر لوگ سوال کرتے رہتے ہیں، اس کی مناسبت سے چند اہم مسائل پیش خدمت ہیں۔
□ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ بعضوں نے ایک اور مسئلہ گھڑ رکھا ہے کہ چاہے کھڑے ہونے پر قدرت ہو لیکن ریل میں بیٹھ کر نماز پڑھنا جائز ہے، بس بیٹھے اور ٹکریں مارلیں حالانکہ فرض نماز میں بشرطِ قدرت قیام فرض ہے، بعض نے یہ مسئلہ گھڑ رکھا ہے کہ تشہد میں بیٹھنا ہی ضروری نہیں سمجھتے، بس پاؤں لٹکا کر اطمینان سے دوسرے تختہ پر سر ٹیک دیا اور اپنے نزدیک نماز پوری کرلی، ذرا مشقت بھی گوارا نہیں، چاہے فرض سر سے اترے یا نہ اترے، بعضوں کو دیکھا کہ قبلہ رخ ہونا بھی ضروری نہیں سمجھتے، ریل میں کیا بیٹھے کہ اپنے نزدیک خانہ کعبہ میں پہنچ گئے۔ (اشرف الاحکام ٥٠)
□ ایک شخص نے دریافت کیا کہ ریل گاڑی میں نلوں کے اندر جو پانی بھرا جاتا ہے اس سے وضو اور غسل کرلینا جائز ہے یا نہیں؟ فرمایا کہ جائز ہے کیونکہ یہ پانی مسافروں کی ہر قسم کی ضرورت کے لئے بھرا گیا ہے، طہارت خاصہ (استنجاء) حاصل کرنے کے لئے نہیں ورنہ اگر ایسا ہوتا تو قانون میں اس کی تصریح ہوتی اور اس کے خلاف کو جرم قرار دیا جاتا۔ (اشرف الاحکام ١٢٣)
*ٹرین میں پانی نہ ہو تو نماز پڑھنے کا طریقہ*
□ ریل گاڑی میں پانی دستیاب نہ ہو تو تیمم کرسکتا ہے، مگر شرط یہ ہے کہ ریل گاڑی کے کسی ڈبے میں بھی پانی نہ ہو، اور ایک میل شرعی کے اندر پانی کے موجود ہونے کا علم نہ ہو جہاں ریل رُکتی ہو۔ (فتاوی یوسفی ١٣٦/٢)
□ اگر پانی نہ ملنے کی صورت میں کسی آدمی نے تیمم کر کے نماز پڑھنا شروع کی اور ابھی نماز ختم نہ ہوئی تھی کہ اسٹیشن قریب آگیا جہاں پانی کا ملنا یقینی امر ہے تو اب نماز کو وضو کرکے از سر نو ادا کرنا چاہئے اور اگر نماز ختم کرنے کے بعد اسٹیشن آیا جہاں پانی ملنے کا یقین ہے، تو وہ نماز ہوگئی، اب اس کو دوبارہ پڑھنے کی حاجت نہیں ہے۔ (جامع الفتاوی ١٦٧/٤)
*لما فی السنن لأبي داؤد رقم : ٣٣٨- ١٤٦/١)*
عن أبي سعيد الخدري رضى الله عنه قال خرج رجلان في سفر فحضرت الصلاة وليس معهما ماء فتيمما صعيدا طيبا فصليا ثم وجدا الماء في الوقت فأعاد أحدهما الصلاة والوضوء ولم يعد الآخر ثم أتيا رسول الله صلى الله عليه وسلم فذكرا ذلك له فقال للذي لم يعد" أصبت السنة وأجزأتك صلاتك" وقال للذي توضأ وأعاد "لك الأجر مرتين.
*ٹرین پر کس طرح نماز پڑھیں؟*
□ اگر مسافر ایسی سواری پر سفر کررہا ہے کہ اس سواری پر باضابطہ رکوع، سجدہ کے ساتھ نماز پڑھنے کی گنجائش نہیں ہے، جیسا کہ بس کا سفر ہوتا ہے، تو اس وقت اشارے سے نماز پڑھ لے اور بعد میں اس کی قضا بھی کرلے اور اگر ٹرین کا سفر کررہا ہے تو ٹرین میں اشارہ سے نماز پڑھنا جائز نہیں ہے، اس لئے کہ ٹرین میں رکوع وسجدہ کے ساتھ نماز پڑھنے کی گنجائش ہوتی ہے، ہاں البتہ کسی ٹرین میں ازدحام اور بھیڑ کی وجہ سے رکوع وسجدہ سے نماز پڑھنے کی کوئی شکل نہ بنے تو اس میں بھی اشارہ سے نماز پڑھ لے اور بعد میں قضاء کرلے۔ (محمودیہ ۷ / ۵۳۲، قاسمیہ ٧٦٢/٨)
*ٹرین میں استقبال قبلہ بھی ضروری ہے*
□ نماز کے لئے قیام اور استقبال قبلہ پر قدرت کے باوجود ان دونوں میں سے کسی کو ترک کرنے سے نماز نہیں ہوگی، سفر میں ہو یا حضر میں، ریل میں ہو یا جہاز میں، سب کا یہی حکم ہے۔ (محمودیہ ٤٦٨/١١)
□ ریل گاڑی میں استقبال قبلہ ممکن ہے، نیز اس میں کوئی خاص دشواری بھی نہیں ہوتی ہے، اس لئے ریل گاڑی میں بھی قبلہ کے علاوہ کسی اور جانب رخ کرکے نماز پڑھنا درست نہ ہوگا اور وہ نماز بھی ادا نہ ہوگی، البتہ سمت قبلہ کا پتہ نہ ہو، نیز کوئی بتانے والا بھی نہ ہو اور اس کے جاننے کا کوئی اور راستہ بھی نہ ہو تو اس صورت میں تحری کرکے تحری کے موافق سمت کی جانب رخ کرکے نماز پڑھنے سے نماز ہوجائے گی، کیونکہ ایسی صورت میں جہت تحری ہی سمت قبلہ ہوتی ہے۔ (دارالافتاء دارالعلوم دیوبند جواب : ٥٢٦٩٤)
□ ریل میں نماز پڑھنے میں استقبال قبلہ ضروری ہے، قبلہ کی طرف کو منہ کرکے نماز شروع کرے اور نماز پڑھنے کی حالت میں اگر ریل کا رخ بدل جائے اور یہ جانتا ہے کہ ریل کا رخ بدل گیا تو یہ بھی قبلہ کی طرف کو پھر جائے، اگر اس کی نماز پڑھنے کی حالت میں ریل کا رخ چند مرتبہ بدلا اور اس نے برابر قبلہ رخ ہو کر نماز ادا کی اور چاروں رکعتیں نماز کی چار طرف کو ادا ہوئیں تو کچھ مضائقہ نہ سمجھے، بلکہ یوں ہی ہونا ضروری ہے، اگر اس کو نماز پڑھنے میں ریل کے رخ بدلنے کی خبر نہ ہوئی اور ایک ہی طرف کو نماز پڑھی گئی تو نماز ہوگئی، اگر ریل میں سمت قبلہ کی معلوم نہ ہو تو لوگوں سے معلوم کرلے، اگر کوئی بتانے والا نہ ہو تو دل میں خوب غور کرے اور اٹکل سے کام لے جس طرف کو اس کا دل گواہی دی اسی طرف کو نماز ادا کرے۔ (جامع الفتاوی ١٧٠/٤)
*ٹرین میں بیٹھ کر نماز پڑھنا*
□ ٹرین میں کھڑے ہوکر قبلہ رخ ہوکر آسانی کے ساتھ نماز پڑھی جاسکتی ہے، اس کے لئے عام طور پر جو عذر پیش کئے جاتے ہیں وہ ایسے عذر نہیں ہیں کہ جس کی وجہ سے استقبال قبلہ اور قیام جیسے فرض اور رکن صلاۃ کو ترک کردیا جائے، ٹرین کے بیچ میں ہر دو سیٹوں کے درمیان ایک آدمی آسانی سے نماز پڑھ سکتا ہے، اس لئے چلتی ٹرین میں فرض اور واجب نمازیں کھڑے ہوکر پڑھنا فرض ہے، بلا عذر بیٹھ کر پڑھنے سے فرض نماز ادا نہ ہوگی، اگر سخت بھیڑ کی وجہ سے کھڑے ہو کر پڑھنے کا موقع نہ ہو تو بھی قیام کا فریضہ ساقط نہ ہوگا، کیونکہ یہ عذر بندوں کی طرف سے آیا ہے، جس کی وجہ سے ترک قیام کی رخصت نہیں دی جاسکتی، البتہ اگر کھڑے ہوکر پڑھنے میں مجبوری کی صورت میں جس طرح بھی ہوسکے بیٹھ کر یا اشارہ سے نمازیوں کی مشابہت اختیار کرے اور پھر بعد میں اس کی قضاء کرلے۔ (قاسمیہ ٧٦٣/٨)
*ٹرین میں دو سیٹوں یا راستوں کے درمیان نماز پڑھنا؟*
□ ٹرین میں مجبوری کی وجہ سے ٹرین کے ڈبہ میں گذر گاہ میں نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں، اس لئے کہ دو چار منٹ لوگوں کی آمد و رفت بند ہونے سے مسافروں کو کوئی خاص زحمت نہیں ہوتی، تاہم دیر تک راستہ نہ روکے رکھے اور نماز کو مختصر پڑھے تاکہ دوسرے لوگوں کو آنے جانے میں دشواری نہ ہو۔
فإن اضطر… یصلي في الطریق أي لأن له فی الطریق حقا۔ (شامي، الصلاۃ / مطلب في الصلاۃ الأرض المغصوبة ودخول البساتین الخ ۲؍٤٤ زکریا)
*دوران سفر سنتوں کا حکم*
□ حدیث پاک میں سنتوں کی تاکید آئی ہے اور بلا عذر تارک سنت کے لئے شفاعت سے محرومی کی وعید ہے، جہاں تک ہوسکے سنتوں کی پابندی کرے، مسافر آدمی اگر تشویش اور انتشار کی حالت میں نماز پڑھتا ہے جیسے پلیٹ فارم پر گاڑی کا وقت قریب ہے، مسافروں کا ہجوم ہے یا کسی جگہ چلتے چلتے بس ٹھہری اور بہت جلد روانہ ہوجانے والی ہے، تو ایسی حالت میں وہ فرائض پر اکتفاء کرے کہ شریعت نے اس کی سہولت کی خاطر چار رکعت فرض کی جگہ دو ہی کو فرض قرار دیا ہے تو سنتیں نہ پڑھنے پر کوئی پکڑ نہ ہوگی اور جب سکون کی حالت میں ہو مثلاً کسی شہر میں آٹھ دس روز کے لئے ٹھہرا ہوا ہے اور ہر طرح اطمینان ہو تو سنتیں ترک نہ کرے البتہ سفر کی حالت میں مسافر کے لئے سنن کا تاکد نہیں ہے۔ (محمودیہ ٤٧٤/١١)
*ناشر: دارالریان کراتشی*
Comments
Post a Comment