بیوی کا اپنے نام کے ساتھ شوہر کانام لگانا
# فقہیات #
=== بیوی کا اپنے نام کے ساتھ شوہر کا نام لگانا ===
سوشل میڈیا پر یہ بحث اکثر موضوع سخن بنتی ہے کہ بیوی کا اپنے نام کے ساتھ شوہر کا نام لکھنا یا لگانا حرام ہے، لیکن یہ بات قطعی طور پر درست نہیں، کیونکہ قرآن و حدیث میں ممانعت اس بات کی ہے جہاں آدمی اپنی ولدیت اور نسب کو تبدیل کردے، یعنی اپنے حقیقی والد کو چھوڑ کر دوسرے شخص کو اپنا والد ظاہر کرے یا اپنا سلسلہ نسب کسی اور فرد سے جوڑے، اگر کوئی بطور تعارف کے اپنے نام کے ساتھ کوئی نسبت یا تخلص لگاتا ہے اور معاشرے میں اس کو اس کی ولدیت نہیں سمجھا جاتا تو یہ لگانا جائز ہے، اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے:
وَمَا جَعَلَ أَدْعِيَاءَكُمْ أَبْنَاءَكُمْ ذَلِكُمْ قَوْلُكُمْ بِأَفْوَاهِكُمْ وَاللَّهُ يَقُولُ الْحَقَّ وَهُوَ يَهْدِي السَّبِيلَ، ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ فَإِنْ لَمْ تَعْلَمُوا آبَاءَهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَمَوَالِيكُمْ} [الأحزاب : 4 ، 5]
یعنی اللہ تعالی نے تمہارے منہ بولے بیٹوں کو تمہارا حقیقی بیٹا نہیں بنایا، یہ تو باتیں ہی باتیں ہیں جو تم اپنے منہ سے کہہ دیتے ہو، اور اللہ وہی بات کہتا ہے جو حق ہو، اور وہی صحیح راستہ بتلاتا ہے،تم ان (منہ بولے بیٹوں) کو ان کے اپنے باپوں کے نام سے پکارا کرو، یہی طریقہ اللہ کے نزدیک پورے انصاف کا ہے اور اگر تمہیں ان کے باپ معلوم نہ ہوں تو وہ تمہارے دینی بھائی اور تمہارے دوست ہیں۔
● حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس نے جانتے ہوئے (اپنے باپ کو چھوڑ کر) کسی دوسرے کو اپنا باپ ظاہر کیا، اس پر جنت حرام ہے۔ (رواہ الشیخان فی الصحیحین واحمد وابو داؤد و ابن ماجة)
● ایک دوسری روایت میں ارشاد گرامی ہے کہ جس نے (اپنے باپ کو چھوڑ کر) کسی دوسرے کو اپنا باپ بتایا، یا کسی (آزاد کردہ غلام) نے اپنے مولیٰ کے علاوہ کسی دوسرے کی طرف اپنا مولیٰ ہونے کی نسبت کی، اس پر قیامت کے دن تک اللہ کی مسلسل لعنت ہوگی۔ (رواہ ابو داؤد، سیوطی نے کہا : یہ حدیث صحیح ہے۔)
چنانچہ لے پالک کے بارے میں یہ نصوص واضح ہیں کہ ان کو ان کے حقیقی والد کی طرف منسوب کیا جائے، اور چونکہ پرورش کرنے والا حقیقی باپ کے درجے میں نہیں ہوتا، لہذا اُس کا اپنے آپ کو اس کے والد کے طور پر پکارنا اور کاغذات میں لکھوانا جائز نہیں، جبکہ کسی لڑکی کا شادی کے بعد اپنے نام کے ساتھ اپنے شوہر کا نام لگانا اس لئے نہیں ہوتا کہ وہ اپنا والد یا نسب تبدیل کررہی ہوتی ہے بلکہ یہ صرف تعارف کے لئے ہوتا ہے، اور یہ بات کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتی کہ وہ اپنا نسب تبدیل کررہی ہے، ہمارے معاشرے میں عام طور پر لڑکی کی شادی سے پہلے والد کا نام لکھا جاتا ہے جو کہ اثبات ِ نسب ہے اور یہ شریعت کے عین مطابق ہے، تاہم شادی کے بعد شوہر کا نام لکھنا بطور تعارف کے ہے جس کی بسا اوقات بعض قانونی وجوہات کے طور پر ضرورت پیش آتی ہے جو کہ شرعا جائز ہے، تاہم اگر کسی عورت کیلئے اپنے شوہر کا نام لکھنے میں نسب کے مشتبہ ہونے کا اندیشہ ہو اور لوگ اس کے شوہر کو اس کا والد سمجھنے لگیں تو اس عورت کیلئے اپنے نام کے ساتھ اپنے شوہر کا نام لکھنا درست نہ ہوگا۔
یہ واضح رہے کہ کسی کے نام کے ساتھ اس کے کسی تعارف کا ہونا فطری امر ہے اور یہ انسان کا معاشرہ میں مختلف نسبتوں سے تعارف نعمت خداوندی ہے جس کا سورة الحجرات میں بھی ذکر ہے اور اس سے اختلاطِ نسب کا وہم نہیں ہوتا، پھر تعارف کا باب بہت وسیع ہے، تعارف کبھی ولاء سے ہوتا ہے جیسے عکرمہ مولی ابن عباس، کبھی حرفت سے ہوتا ہے جیسے قدروری و غزالی،کبھی لقب اور کنیت سے ہوتا ہے جیسے أعرج اور ابو محمد أعمش، کبھی ماں کی طرف نسبت کرکے ہوتا ہے حالانکہ باپ معروف ہوتا ہے جیسے عبد اللہ ابن ام مکتوم، اسماعیل ابن علیة اور کبھی زوجیت کے ساتھ ہوتا ہےجیسا قرآن مجید میں ایک جگہ"امرأۃ نوح وامرأۃ لوط" ( التحریم:۱۰) اور دوسری جگہ "امرأۃ فرعون" ( التحریم:۱۱) وارد ہے۔
صحیحین میں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:
جَاءَتْ زَيْنَبُ، امْرَأَةُ ابْنِ مَسْعُودٍ، تَسْتَأْذِنُ عَلَيْهِ، فَقِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَذِهِ زَيْنَبُ، فَقَالَ: «أَيُّ الزَّيَانِبِ؟» فَقِيلَ: امْرَأَةُ ابْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: «نَعَمْ، ائْذَنُوا لَهَا» (بخاری :۱٤٦٢)
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی بیوی زینب آئیں اور اجازت طلب کی، اور کہا گیا کہ یا رسول اللہ ! یہ زینب آئی ہیں، آپ نے پوچھا کہ کونسی زینب؟ بتایا گیا کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی بیوی! فرمایا کہ ہاں اسے آنے کی اجازت دے دو۔
یاد رہے کہ نسبت وہ حرام ہے جس میں ولدیت کے لفظ کے ساتھ والد کے علاوہ کسی اور کی طرف نسبت کی جائے، مطلقاً نسبت یا تعریف کے لئے نسبت کرنا حرام نہیں ہے۔
ولو کنی إبنه الصغیر بأبي بکرا وغیرہ الصحیح أنه لابأس به، فإن الناس یریدون التفاؤل أنه یصیر أبا في ثاني الحال لا التحقیق في الحال۔ (ہندیۃ، الباب الثاني والعشرون في شمیۃ الأولاد، زکریا قدیم ۵/ ۳٦٢، جدید ۵/ ٤١٨، المحیط البرہاني، المجلس العلمي بیروت ۸/ ۹٦، رقم: ۹٦٧٨، الموسوعة الفقہیة الکویتیة ۳۵/ ۱۷۱، الفتاوی التارتارخانیة زکریا ۱۸/ ۲۲۹، رقم: ۲۸٦٠٦)
ناشر: دارالریان کراتشی
Comments
Post a Comment