عورت کا کسب معاش کے لئے باہر نکلنا
# فقہیات #
=== عورت کا کسب معاش کے لئے باہر نکلنا ===
کچھ عرصہ قبل *زیب و زینت کے مسائل* کی 20 اقساط مرتب کی گئی تھیں جس میں مختلف نوعیت کے مسائل تھے، بعض رفقاء کے تقاضہ پر ایک ہی نوعیت کے مختلف مسائل کو ایک ہی پوسٹ میں مرتب کیا جارہا ہے، تاکہ پڑھنے والوں کو سہولت ہو۔(✍ : سفیان بلند)
شریعت نے اصالةً عورت پر کسب ِمعاش کی ذمہ داری نہیں ڈالی ہے، بلکہ مردوں کو کسب ِمعاش کا مکلف بنایا ہے، چنانچہ شادی تک لڑکیوں کا نان ونفقہ والد کے ذمے اور شادی کے بعد شوہر پر واجب قرار دیا ہے، یہی لوگ اس کے نان ونفقہ کے ذمہ دار ہیں، ارشاد ربانی ہے :
*{الرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلٰی النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ بَعْضَہُمْ عَلٰی بَعْضٍ وَّبِمَآ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِہِمْ}* (سورہ نساء:۳٤)
(یعنی مرد حاکم ہیں عورتوں پر اس سبب سے کہ اللہ تعالی نے بعضوں کو بعضوں پر فضیلت دی ہے اور اس سبب سے کہ مردوں نے اپنے مال خرچ کئے ہیں)
اس لئے کسی عورت کو اگر نفقے کی تنگی یا مخصوص حالات کے تحت معاشی بدحالی کا سامنا نہیں، تو محض معیارِ زندگی بلند کرنے اور زندگی میں ترفہ (تعیش) پیدا کرنے کے لئے گھر سے باہر نکل کر ملازمت کے لئے پیش قدمی کرنا شریعت کی نظر میں پسندیدہ عمل نہیں، لیکن اگر عورت کو معاشی تنگی کا سامنا ہو اور شوہر اس کی ذمہ داری اٹھانے سے قاصر ہو، یا تساہلی کرتا ہو، یا عورت بیوہ ہو اور گھرمیں رہ کر اس کے لئے کوئی ذریعہ معاش اختیار کرنا ممکن نہ ہو، تو ایسی مجبوری اور ضرورت کے وقت ملازمت کے لیے گھر سے باہر نکلنے کی اجازت ہوگی، چنانچہ حضرات فقہائے کرام نے معتدة الوفات (بیوہ) کو کسبِ معاش کے لئے دن دن میں گھر سے باہر نکلنے کی اجازت دی ہے، مگر ایسی مجبوری اور ضرورت کے وقت باہر نکل کر ملازمت کے جائز ہونے کے لئے پہلی شرط یہ ہے کہ ملازمت کا کام فی نفسہ جائز کام ہو، ایسا کام نہ ہو جو شرعاً ناجائز یا گناہ ہو، کیونکہ ممنوع و ناجائز کام کی ملازمت بہرصورت ناجائز ہے۔
عورت کے لئے ملازمت ناگزیر ہونے کی صورت میں اور اس شرط کے پائے جانے کے ساتھ کہ وہ ملازمت جائز کام کی ہے، دوسری ضروری شرط احکامِ ستر وحجاب کی پوری پابندی کرنا ہے۔
*عورت کے ملازمت کرنے کے چند اہم شرعی احکام*
*1- مکمل شرعی پردہ کرنا*
شرعی پردہ کی مکمل رعایت ہو، باہر نکلنے کے وقت شدید ضرورت کی حالت میں اگرچہ چہرہ اور ہاتھ کھولنے کی اجازت ہے، مگر فتنے کا خوف ہو تو ان کے کھولنے سے بھی پرہیز کرنا ضروری ہے، موجودہ دور جو فتنہ کا خوف ناک دور ہے، اس میں عام حالات میں حکم چہرہ چھپانے ہی کا ہے۔
*2- لباس ساتر اور موٹا ہونا*
لباس دبیز (ایسا موٹا جس سے بدن نمایاں نہ ہو) سادہ اور جسم کے لئے ساتر ہو، بھڑک دار، جاذب، پر کشش اور نیم عریاں قسم کا نہ ہو، اور ایسا لباس بھی نہ ہو، جس سے جسم کا کوئی حصہ نمایاں ہوتا ہو، کیوں کہ حدیث میں عورت کے لئے ایسا لباس پہننے کی ممانعت اور وعید وارد ہوئی ہے :
*{رب نساء کاسیات عاریات ممیلات ومائلات، لا یدخلن الجنّة ولا یجدن ریحہا وإن ریحہا لیوجد من مسیرة کذا وکذا}* (مسلم شریف:۱/۳۹۷)
یعنی کچھ عورتیں ہیں جو کپڑا پہننے والی ہیں (مگر) وہ برہنہ ہیں، دوسروں کو مائل کرنے والی ہیں اور خود بھی مائل ہونے والی ہیں (ایسی عورتیں) ہرگز جنت میں نہیں جائیں گی اور نہ اس کی خوشبو سونگھ پائیں گی حالانکہ اس کی بواتنی اتنی دور سے آئے گی۔
*3- بناؤ سنگھار سے اجتناب*
بناؤ سنگھار اور زیب و زینت کے ساتھ نیز خوشبو لگا کر نہ نکلے، قرآن کریم میں اس سے ممانعت وارد ہوئی ہے، ارشاد باری ہے:
*{وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاہِلِیَّةِ الْأوْلَی}* (احزاب:۳۳)
احادیث میں بھی خوشبو لگا کرنکلنے و الی عورت کو زانیہ قرار دیا گیا ہے:
*{کل عین زانیة والمرأة إذا استعطرت فمرت بالمجلس فہي کذا وکذا یعني زانیة}* (ترمذی:رقم:۲۷۸۶)
(یعنی ہر آنکھ زنا کرنے والی ہے اور عورت جب خوشبو لگا کر مجلس کے پاس سے گذرتی ہے تو وہ زنا کرنے والی ہوتی ہے)۔
*4- مردوں کے اختلاط سے گریز*
مردوں سے بالکل اختلاط نہ ہو، اگر کبھی کسی مرد سے اتفاقیہ گفتگو کی نوبت آئے تو عورت لوچ دار طرزِ گفتگو کے بجائے سخت لہجہ اختیار کرے تاکہ دل میں بے جا قسم کے وساوس وخیالات پیدا نہ ہوں، اللہ تعالیٰ کا ارشادہے:
*{فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَیَطْمَعَ الَّذِیْ فِیْ قَلْبِہِ مَرَضٌ}*(الآیة احزاب : ۳۲)
(یعنی تم بولنے میں نزاکت مت کرو کہ ایسے شخص کو خیال ہونے لگتا ہے جس کے قلب میں خرابی ہے)
*5- آواز پیدا کرنے والے زیور سے اجتناب*
ایسا زیور پہن کر نہ نکلے جس سے آواز آتی ہو، ارشاد باری ہے :
*{وَلَا یَضْرِبْنَ بِاَرْجُلِہِنَّ لِیُْعْلَمَ مَا یُخْفِیْنَ مِنْ زِیْنَتِہِنَّ}*(النور:۳۱)
(یعنی اور اپنے پاؤں زور سے نہ رکھیں کہ ان کا مخفی زیور معلوم ہوجائے)
*6- خانگی امور میں لاپرواہی نہ ہونا*
ملازمت کرنے کی وجہ سے خانگی امور میں لاپروائی نہ ہو جس سے شوہر اور بچوں کے حقوق ضائع ہوں، کیونکہ عورت کی اولین اور اہم ذمہ داری، بچوں کی تعلیم و تربیت اور امور خانہ داری ہے، ملازمت ثانوی درجہ کی چیز ہے، شریعت نے عورت کو اس کا مکلف بھی نہیں بنایا۔
*7- آمد و رفت کا راستہ پر امن ہو*
راستہ پُر امن ہو، یعنی آمد و رفت کے دوران کسی شر اور فتنہ کا اندیشہ نہ ہو۔
مذکورہ شرطیں قرآن و حدیث سے ثابت ہیں، فقہائے کرام نے ان کی صراحت کی ہے، ان شرائط کا لحاظ رکھتے اور ان پر عمل کرتے ہوئے اگر جائز کام کی ملازمت عورت اختیار کرے تو اس کی گنجائش ہوسکتی ہے، مگر غور کامقام ہے کہ اکثر جگہوں میں دورانِ ملازمت ان میں سے بیشتر شرائط مفقود ہوتی ہیں، اور یہ بھی غور کرنے کا مقام ہے کہ جہاں عورتوں کی ملازمت سے بظاہر کچھ فوائد محسوس کئے جاتے ہیں، وہیں معاشرے پر اس کے بہت زیادہ خراب اثرات بھی پڑرہے ہیں، مثلاً خاندانی رکھ رکھاؤ ختم ہوجاتا ہے، زوجین کے مزاج و انداز میں ایک دوسرے سے دوری پیدا ہوجاتی ہے، بچوں کی تربیت نرسری کے حوالے ہوجاتی ہے ،عورت کی ملازمت ہی کے نتیجے میں طلاق وتفریق کے مسائل بھی بہ کثرت رونما ہورہے ہیں، اگر کسی عورت کو واقعی معاشی تنگی کا سامنا ہونے کی بناپر ملازمت ناگزیر ہوجائے تو بہ وقت ضرورت ملازمت اختیار کرنے کی صورت میں اسے اللہ تعالی اور اس کے رسول حضرت محمد ﷺ پر کامل ایمان اور اسلام کے احکام پر پختہ یقین رکھنے والی مسلم خاتون کی طرح اسلام کے حکم حجاب کو بھی تسلیم کرتے ہوئے، حجاب کی شرعی ہدایات پر کاربند اور عمل پیرا ہونے میں فخر محسوس کرنا چاہیے، کیونکہ یہ اسلام کا خصوصی حکم اور اس کا شعار ہے، لہٰذا عورت خود اپنے حالات میں غور کرلے کہ اس کو ملازمت کی ضرورت کس درجہ کی ہے اور ملازمت اختیار کرنے میں کیا کیا امور ناجائز و گناہ کے اسے اختیار کرنے پڑیں گے، جن سے ایک مسلم خاتون کی حیثیت سے اپنے آپ کو بچانے کی فکر کرنا، اس کے ذمہ لازم وضروری ہے، حاصل یہ ہے کہ مجبور کن حالات میں بھی خلافِ شرع امور سے اجتناب کی راہ اختیار کرنا، عورت کی خود اپنی ذمہ داری ہے۔(مستفاد از فتوی دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند)
*بعض فتاوی میں یہ شرائط بھی مذکور ہیں جن کا اہتمام ضروری ہے*
● عورتوں کا بے پردہ غیر مردوں کے ساتھ دفاتر میں کام کرنا مغربی تہذیب کا شاخسانہ ہے، اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا ...... عورت کا نان و نفقہ اس کے شوہر کے ذمہ ہے، لیکن اگر کسی عورت کے سر پر کوئی کمانے والا نہ ہو تو مجبوری کے تحت اس کو کسبِ معاش کی اجازت ہے، مگر شرط یہ ہے کہ اس کے لئے باوقار اور باپردہ انتظام ہو، نامحرَم مردوں کے ساتھ اختلاط جائز نہیں۔(مستفاد از فتاوی یوسفی)
● دورانِ ملازمت اجنبی مرد سے خلوَت کرنا اور ان سے خوش گپیوں میں مشغول ہونا شرعاً حرام ہے۔ (مستفاد از فتاوی یوسفی)
● عورت پردہ کے اہتمام کے ساتھ جس میں اجنبی مردوں کے ساتھ اختلاط نہ ہو، تو جائز ملازمت کرسکتی ہے (دارالافتاء دارالعلوم دیوبند)
● کسی عورت کا غیر مرد کے ساتھ تنہائی میں کام کرنا جائز نہیں، ایسی ملازمت کا ترک ضروری ہے، تاہم اس ملازمت کی کمائی پر حرام ہونے کا حکم نہ ہوگا۔ (دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند : جواب نمبر: 43728)
● کسی ایسی فیکٹری میں جہاں صرف عورتوں ہی کا کام ہوتا ہے، کوئی مرد کام نہیں کرتا، وہاں بوقتِ حاجت شرعی حدود کی رعایت رکھتے ہوئے بالغہ لڑکیوں کو کام کرنے کی اجازت ہے۔(مستفاد از فتاوی محمودیہ)
● ایسی عمر رسیدہ عورت جو کہ اپنے تمام فرائض (شوہر اور اولاد کے حقوق) سے سبکدوش ہوچکی ہے، اگر اللہ تعالیٰ نے اس کو معاش کی فکر سے فارغ کر رکھا ہے تو فرصت کو غنیمت سمجھ کر اپنی آخرت کی تیاری میں لگے، ذکر و اَذکار، تسبیحات، تلاوت اور نماز میں وقت گزارے، معاشی طور پر تنگ دست ہو تو باپردہ ملازمت کرسکتی ہے۔ (مستفاد ازفتاوی یوسفی)
● بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ٤٥-٤٠ سال کی عمر پر پہنچنے کے بعد عورت کے لئے شریعت میں پردے کی شرائط بھی نرم ہوجاتی ہیں اور اس عمر میں عورتوں کو مردوں کے ساتھ دفتروں میں کام کرنے کی اجازت دی جاسکتی ہے یا دُوسرے کاموں میں مردوں کے ساتھ رہ سکتی ہیں؟ تو واضح رہے کہ شریعت مطہرہ میں پردے کے اَحکام نرم ہوجانے کے یہ معنی نہیں ہیں کہ اب ان پر نسوانی اَحکامات جاری نہیں ہوتے، جو کام مردوں کے ہیں، یا جن کاموں میں غیر مردوں کے ساتھ بے محابا اختلاط یا تنہائی کی نوبت آتی ہے، وہ اب بھی عمر رسیدہ خواتین کے لئے جائز نہیں ہوں گے۔(مستفاد از فتاوی یوسفی)
ناشر: دارالریان کراتشی
Comments
Post a Comment