وسیلہ کی شرعی حیثیت

*فقہیات*

*=== وسیلہ کی شرعی حیثیت ===*

✍ گزشہ چند دنوں سے ایک پوسٹ واٹس ایپی دنیا میں گردش کررہی ہے جو دراصل غیر اللہ سے سوال کرنے اور اللہ تعالی کے ساتھ کسی کو شریک کرنے کی مذمت پر تھی مگر اس سے بسا اوقات ایسا محسوس ہورہا تھا کہ وہ اہل اللہ و اہل علم کے ہاں معروف وسیلہ کی نفی پر ہو حالانکہ کسی کو وسیلہ بنانا اور کسی کو اللہ تعالی کی صفات میں شریک کرنا، دو الگ الگ موضوع ہیں ، شرک میں در حقیقت مخلوق سے سوال ہوتا ہے اور وسیلہ میں مخلوق سے سوال نہیں ہوتا بلکہ نیک بندوں اور نیک اعمال کو بطور سفارش کے بارگاہ خداوندی میں پیش کرکے اپنی عرض پیش کی جاتی ہے ، توسل بالذوات الصالحین اور توسل بالاعمال الصالحة پر کتب حدیث و فقہ و فتاوی شاہد ہیں ، ذیل میں اسی سلسلہ میں چند گزارشات پیش خدمت ہیں۔

*دو اہم ارشادات نبویہ :*
1- حضرت انس رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ جب (بارش نہ ہونے کے وجہ سے ) قحط سالی ہوتی تو امیر المؤمنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ، حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کے وسیلہ سے بارش کے لئے دعا فرماتے تھے چنانچہ وہ فرماتے کہ اے اللہ ! ہم تیرے نبی ﷺ کے وسیلہ سے تجھ سے دعا کرتے تھے پس تو ہمیں سیراب کرتا تھا ، اب ہم تیرے نبی ﷺ کے چچا کے وسیلہ سے دعا کرتے ہیں پس تو ہمیں سیراب کر، حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ (اس دعا سے) بارش ہو جاتی تھی (صحیح البخاری )
فائدہ : جب حضرت عمر اور دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جو ان کے ہمراہ ہوتے تھے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے وسیلہ سے دعا مانگتے تو حضرت عباس رضی اللہ عنہ فرماتے کہ " اے پروردگار ! تیرے پیغمبر کی امت نے میرا وسیلہ اختیار کیا ہے ، خداوند! تو میرے اس بڑھاپے کو رسوا مت کر اور مجھے ان کے سامنے شرمندہ نہ کر، چنانچہ حضرت عمر و دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی دعا اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ  کے ان الفاظ میں اتنی تاثیر ہوتی کہ جب ہی بارش شروع ہو جاتی تھی۔

2- حضرت امیہ بن خالد بن عبداللہ بن اسید رضی اللہ عنہ حضور اکرم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ (اللہ تعالیٰ سے کفار کے مقابلہ) فتح حاصل ہونے کے لئے درخواست کرتے تو فقراء مہاجرین کی برکت کے ذریعہ دعا مانگتے۔ (شرح السنہ)
فائدہ : ملا علی قاری رحمہ اللہ نے ابن ملک رحمہ اللہ سے یہ نقل کیا ہے کہ حضور اکرم ﷺ اللہ تعالیٰ سے فقراء مہاجرین کا واسطہ اختیار کر کے فتح کی درخواست فرماتے بایں طور کہ آپ ﷺ اس طرح دعا فرمایا کرتے تھے کہ *اللہم انصرنا علی الاعداء بعبادک الفقراء المہاجرین*
حضرت شیخ عبدالحق دہلوی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ یہ حدیث فقراء و نادار مسلمانوں کی اس عظمت و فضیلت کو ظاہر کرتی ہے جو سرکار دو عالم ﷺ نے ان کے لئے ثابت فرمائی، چنانچہ آپ ﷺ نے یہ شرف صرف فقراء و مساکین کو عطا فرمایا کہ ان کی برکت کو واسطہ اور وسیلہ بنا کر اللہ تعالیٰ سے فتح و نصرت کی درخواست کرتے تھے۔ ( مستفاد از مظاہر حق )

کتب فتاوی میں ہے کہ :
1- ہمارے نزدیک دعاؤں میں انبیاء و صلحا و اولیاء و شہداء و صدیقین کا توسل جائز ہے، ان کی حیات میں ہویا بعد وفات با یں طور کہ کہے یا اللہ میں بوسیلہ فلاں بزرگ کے تجھ سے دعا کی قبولیت اور حاجت براری چاہتا ہوں یا اسی جیسے اور کلمات کے چنانچہ اس کی تصریح فرمائی ہے ہمارے شیخ مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ نے بھی اپنے فتاویٰ میں اس کو بیان فرمایا ہے ( فتاوی خلیلیہ المعروف فتاوی مظاہر علوم)

2- بزرگوں کو مخاطب کرکے ان سے مانگنا تو شرک ہے، مگر خدا سے مانگنا اور یہ کہنا کہ یا اللہ! بطفیل اپنے نیک اور مقبول بندوں کے میری فلاں مراد پوری کردیجئے ، یہ شرک نہیں ، جیسا کہ اوپرحضرت عمر رضی اللہ عنہ کی یہ دعا منقول ہے۔

3- دُعا مانگنے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کرے، پھر رسول اللہ ﷺ پر دُرود شریف پڑھے، پھر اپنے لئے اور تمام مسلمان بھائیوں کے لئے مغفرت کی دُعا کرے، پھر جو کچھ اللہ تعالیٰ سے مانگنا چاہتا ہے، مانگے، سب سے بڑا وسیلہ تو اللہ تعالیٰ کی رحیمی و کریمی کا واسطہ دینا ہے، اور حضورِ اقدس ﷺ اور بزرگانِ دین کے طفیل اللہ تعالیٰ سے مانگنا بھی جائز ہے، حدیثِ پاک میں ہے کہ حضور اکرم ﷺ فقراء مہاجرین کا حوالہ دے کر اللہ تعالیٰ سے فتح کی دُعا کیا کرتے تھے۔ ( آپ کے مسائل اور ان کا حل )

4- بیشک اللہ تعالیٰ سے بلاواسطہ دعا مانگنا بھی جائز ہے لیکن اگر کوئی شخص اس طرح توسل کرے کہ یا اللہ آپ کا فلاں بندہ آپ کا مقبول بندہ ہے مجھے اس سے محبت ہے اور اس محبت کی بناء پر میں اس کا وسیلہ پیش کر کے آپ سے فلاں چیز مانگتا ہوں تو اس میں بھی کوئی شرعی قباحت نہیں ہے بلکہ اس کے جواز پر قرآن و سنت سے دلائل موجود ہیں ،کما فی جامع الترمذی (۲/ص۱۹۸ طبع سعید) :
عن عثمان بن حنیف ان رجلا ضریر البصر اتی النبی ﷺ یدعوا بھذا الدعاء اللہم انی أسئلک و أتوجہ إلیک بنبیک محمد نبی الرحمۃ

و فی الشامیۃ ( ۶/۳۹۷ طبع سعید) :
یراد بالحق الحرمۃ و العظمۃ، فیکون من باب الوسیلۃ وقد قال تعالی: و ابتغوا الیہ الوسیلۃ ، وقد عد من آداب الدعاء التوسل علی ما فی الحصن (فتاوی عثمانی)

*ناشر : دارالریان کراتشی*

Comments

Popular posts from this blog