مختلف پیشن گوئیاں اور انکی حقیقت
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته.
كچھ علوم ایسے ھیں جو رائج الوقت بھی ھے اور ان پر ھر مکتبہ فکر والے یقین بھی رکھتے ھیں۔ مثلا محکمہ موسمیات وغیرہ ۔۔۔ جو مختلف پیشن گوئیاں دیتے ھیں جن کا علم صرف اللہ ھی کو ھوتا ھے لکن لوگوں کا نظریہ الٹ جاتا ھے کہ یہ بالکل ایسا ھی ھوگا ,مثلا بارش , بادل, برف باری, سردی, گرمی, ھوایئں اور طوفان وغیرہ وغیرہ، تو؛
کیا اس کی وجہ سے ھمارے عقائد و نظریات پر فرق نہیں پڑتا ؟
کیا کسی کو یہ بتانا یا پیشن گوئی دینا جائز ھے ؟
اسلام اس کے بارے میں کیا حکم دیتا ھے؟
اور کیا ایسے علوم کو حاصل کرنے کی اجازت ھے ؟
اللہ ھمیں صحیح سمجھ عطا فرمائے آمین یا رب العالمین ۔
خان محسود
آن لائن سوال و جواب علماء دیوبند کی زیرنگرانی ا
الجواب باسم ملھم الصواب
وعلیکم السلام و رحمت اللہ وبرکاتہ
قرآن مجید کے متعلق اٹھائے گئے عمومی سوالات میں سے ایک سوال اس آیت کے متعلق ہے:
إِنَّ اللَّهَ عِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْأَرْحَامِ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَاذَا تَكْسِبُ غَدًا وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ ۔
بےشک قیامت کا علم الله ہی کو ہے اور وہی بارش برساتا ہے اور وہی جانتا ہے جو کچھ رحموں میں ہے۔ اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کل کیا عمل کرے گا اور یہ کہ وہ کس زمین میں مرے گا ۔بےشک الله تعالیٰ سب باتوں کا جاننے والا خبیر ہے۔ (لقمان 31:34)
جب سے موسم کی کیفیت کے متعلق پیشگوئی کرنا اور مادر شکم میں پیدا ہونے والے بچہ کی جنس کا پتا لگا لینا ممکن ہوا ہے، یہ اعتراض عام دوہرایا جارہا ہے کہ سائنس کی ترقی نے اس آیت کو غلط ثابت کر دیا ہے۔ اس آیت کو سمجھنے کے لئے ہمیں آیت کے پس منظر پر اور آیت میں علم کی کون سی قسم مذکورہ ہے اس پر غور کرنا ہو گا
آیت صرف علم غیب کے متعلق بات کرتی ہے
آیتِ موضوع میں صرف اور صرف علم غیب کے متعلق ہے نہ کہ دوسری طرح کے علوم کے متعلق۔ سورۃ الانعام میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَعِنْدَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَا إِلَّا هُوَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ (الانعام 6:59)
اور اسی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں جن کو بجز اس کے اور کوئی نہیں جانتا اور اس کو خشکی اور تری کی سب چیزیں معلوم ہیں۔
اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے حضور ﷺ کے ایک صحابی حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
عن ابن عباس:” وعنده مفاتح الغيب “قال: هن خمس: إِنَّ اللَّهَ عِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنزلُ الْغَيْثَ إلى إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ، سورۃ لقمان 34(تفسیر طبری جلد 11 صفحہ 402 الرقم:13307 مطبوعہ مؤسسۃ الرسالۃ 2000)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ” وَعِنْدَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ “ پانچ چیزیں ہیں، جن کا علم اللہ کے سوا کسی کو بھی نہیں ہے کہ قیامت کب آئے گی، بارش کب ہو گی اور رحموں میں کیا ہے۔ اور کسی نفس کو علم نہیں کہ کل کیا ہو گا ، اور کسی نفس کو علم نہیں کہ اس کو موت کہاں آئے گی۔ بے شک اللہ تعالیٰ سب باتوں کا جاننے والا خبیر ہے۔
علم غیب کیا ہے؟
سب سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ غیب کا مطلب کیا ہے۔ جید حنفی سکالر النسفی(المتوفی 710ھ) لکھتے ہیں:
”والغيب وهو ما لم يقم عليه دليل“(تفسیر نسفی جلد 2 صفحہ 617 مطبوعہ دار الکلم طیب بیروت1998ء)
”اور غیب وہ ہے جس پر کوئی ثبوت نہیں ہے“۔
لہٰذا وہ علم جو وحی سے یا مشاہدے کی بنیاد پر حاصل ہوتا ہے وہ ”علم غیب“ نہیں ہے چنانچہ انکے ذریعے کسی کا جنس کا پتا لگا لینا یا موسمی کیفیت کا مظاہر کو دیکھتے ہو پیشگوئی کرنا اس آیت کے زیر نہیں آتا۔
آیت کا شان نزول
آیت سے صرف یہ مراد نہیں کہ صرف مذکورہ پانچ چیزیں ہی اللہ تعالیٰ کے علم مطلق میں ہیں، بلکہ یہ پانچ چیزیں، پانچ سوالات کے جواب میں بتلائیں گئیں ہیں جیسے کہ سیاق سباق سے ذیل میں بتلایا گیا ہے۔
وارث بن عمرو نامی ایک بدو حضور ﷺ کے پاس آیا اور ان سے پوچھا کہ: ”قیامت کب آئے گی؟ پھر اس نے پوچھا کہ ہماری زمینیں قحط زدہ ہیں، بارش کب ہو گی؟ میں اپنی بیوی کو اس حالت میں چھوڑ آیا کہ وہ حاملہ تھی، میری حاملہ بیوی کیا جنے گی؟ میں نے کل اور آج جو کچھ کیا وہ تو مجھے معلوم ہے مگر میں آئندہ کل کیا کروں گا ؟ اور یہ کہ مجھے اپنی جائے پیدائش کا علم ہے مگر میری موت کہاں واقع ہوگی ؟“۔ یہ آیت اس بدو کے جواب میں نازل ہوئی کہ ان چیزوں کا حقیقی علم صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کو ہے۔(فتح القدیر للشوکانی جلد 4 صفحہ 282 مطبوعہ دار ابن کثیر دمشق 1414ھ)
علامہ مودودی وضاحت فرماتے ہیں:
” یہاں ایک بات اور بھی اچھی طرح سمجھ لینی ضروری ہے ، کہ اس آیت میں امور غیب کی کوئی فہرست نہیں دی گئی ہے جن کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں ہے ۔ یہاں تو صرف سامنے کی چند چیزیں مثالاً پیش کی گئی ہیں جن سے انسان کی نہایت گہری اور قریبی دلچسپیاں وابستہ ہیں اور انسان اس سے بےخبر ہے ۔ اس سے نتیجہ نکالنا درست نہ ہو گا کہ صرف یہی پانچ امور غیب ہیں جن کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا ۔ حالانکہ غیب نام ہی اس چیز کا ہے جو مخلوقات سے پوشیدہ اور صرف اللہ پر روشن ہو، اور فی الحقیقت اس غیب کی کوئی حد نہیں ہے “۔(تفہیم القرآن جلد 4 صفحہ 29 مطبوعہ ادارہ ترجمان القرآن لاہور)
زیر بحث آیت میں علم سے کیا مراد ہے؟
یہ بالکل واضح ہے کہ یہاں علم سے مراد اس طرح کا علم نہیں جس میں اندازہ دہی کے لئے بھی کچھ علمی ڈگریوں کی ضرورت ہو، جو علم کئی طریقوں سے حاصل کیا جا سکتا ہے مثلاً خوابوں، سازو سامان، سوجھ و بوجھ کے ذریعے وغیرہ، اس طرح کا علم اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص نہیں بلکہ در حقیقت یہ اللہ تعالیٰ کے علم سے مناسبت بھی نہیں رکھتا۔ مثلاً ایک شخص بادلوں سے اندازہ لگائے کہ بارش برسے گی، سورۃ القمان کی زیر بحث آیت میں اس طرح کا علم مراد ہی نہیں ہے۔ عظمتِ خداوندی بھی اس بات کے شایان شان ہے کہ یہ علم کی وہ قسم ہونی چاہیے جو صرف اور صرف اللہ تعالیٰ سے منسوب ہو اور اس کی ذات واحد سے خاص ہو۔ چنانچہ وہ علم جو ہر ایک کو معلوم ہے وہ بھی اللہ تعالیٰ کے ساتھ منسوب ہو گا۔ اور وہ تمام مشترکہ علم بھی اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے۔اختصار کی غرض سے ہم وسیع معنوں میں اللہ تعالیٰ کے علم کی دو حصوں میں درجہ بندی کر سکتے ہیں:
۱)وہ علم جو کسی بھی ذریعہ سے حاصل نہیں کیا جا سکتا یعنی علم غیب۔
۲)وہ علم جو ہر چیز کا اور اس کی ہر یک تفصیل کا گھراؤ کئے ہوئے ہے یعنی علم محیط۔
درج ذیل آیت اس بات کو واضح کرتی ہے:
وَعِنْدَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَا إِلَّا هُوَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ (الانعام 6:59)
”اور اسی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں جن کو بجز اس کے اور کوئی نہیں جانتا اور اس کو خشکی اور تری کی سب چیزیں معلوم ہیں“۔
یہ آیت علم غیب کے علاوہ کامل اور ہر چیز پر محیط علم کے متعلق ہے، جیسا کہ” مَا “ کے لفظ سے پتا چلتا ہے جو یہاں ہر چیز کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔
انسانی علم ان دونوں قسموں میں سے نہیں
انسانی علم نہ تو انڈیپینڈینٹ ہے اور نہ ہی قطعی۔ ایک ڈاکٹر کسی شخص کی نبض پر ہاتھ رکھ کر کئی نتائج حاصل کر سکتا ہے مگر یہ علم کسی ذریعہ سے حاصل شدہ ہے۔ اسی طرح ایک شخص دور سے اٹھتے دھوئیں کو دیکھ کر سمجھ لیتا ہے کہ وہاں آگ ہے، لیکن اس شخص نے اٹھتے ہوئے دھوئیں سے یہ علم حاصل کیا ہے۔ اس لئے اس علم کو علم غیب نہیں کہا جا سکتا ۔ کیونکہ ہم پہلے ہی جانتے ہیں کہ مہیا کیا گیا یا انتقال شدہ علم، علم غیب نہیں ہو سکتا ہے۔ مختصر یہ کہ کوئی بھی علم جو کسی ذریعہ پر منحصر ہے علم غیب نہیں کہلایا جا سکتا۔ جیسے مثال کے طور پر اگر کسی ڈاکٹر سے حاملہ عورت کے لائے بغیر پوچھا جائے کہ اس عورت کے پیٹ میں موجود بچے کی جنس کیا ہے؟ تو ڈاکٹر یہ بتانے سے قاصر ہے، کیونکہ اس کا علم منحصر علی الذات ہے۔ اسی وجہ سے یہ علم زیر بحث آیت کے بیان کے انڈر نہیں آتا۔
مزید ایسے ہی سائنسی علم قطعی نہیں ہے۔ بارش کے متعلق جاننا شاید آسان ہو مگر یہ قطعی طور پر نہیں کہا جا سکتا ہے کہ دنیا میں، ہر ایک جگہ پر کب اور کتنی بارش ہو گی۔ جیسا کہ فرشتے بارش کو برسانے کا فعل انجام دیتے ہیں مگر ان کے بھی علاقہ جات مختص ہوتے ہیں جن کے متعلق ان کو علم دیا جاتا ہے۔ علم قطعی و کامل صرف اللہ تعالیٰ کی ذات برحق کو ہے۔
ہذا ما عندی و اللہ اعلم بالصواب
مجیب فداحسین ملاخیل
Slots - Casino & Roulette Apps - JTG Hub
ReplyDeleteSlots is 목포 출장안마 the only app for slot machines that comes 서귀포 출장안마 with real money. The bonus features a progressive jackpot 충청북도 출장안마 system, 제천 출장샵 and it gives 경산 출장샵 you a chance to