فقہ حنفی کا ماخذ اور مدار
*فقہیات*
*=== فقہ حنفی کا ماخذ اور مدار ===*
فقہ حنفی کا مدار صحابیِ رسول حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی ذات پر ہے اور اس فقہ کی بنیاد وہ احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جن کو حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں،آپ کی کنیت ابوعبدالرحمن تھی ،قبیلہ بنو ہذیل سے ہیں ، صاحب السواد والسواک کے لقب سے مشہور تھے، ابتدائے دور اسلام میں دعوت قبول کی اور مشرف باسلام کی توفیق نصیب ہوئی، آنحضرت ﷺ کے دار ارقم میں منتقل ہونے سے پہلے ہی مسلمان ہو گئے تھے ۔ اس وقت تک حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول نہیں کیا تھا ، بعض حضرات کہتے ہیں کہ یہ چھٹے مسلمان ہیں، ان سے پہلے صرف پانچ آدمیوں نے اسلام قبول کیا تھا ، قبول اسلام کے بعد آنحضرت ﷺ نے ان کو اپنے پاس رکھ لیا تھا اور اپنی متعدد خدمتیں ان کے سپرد کر دی تھیں ، چنانچہ آپ ﷺ کی مسواک انہی کے پاس رہا کرتی تھی ، آپ ﷺ کو جوتی پہنایا کرتے تھے ، سفر میں آپ ﷺ کے لئے طہارت و وضو وغیرہ کا پانی رکھتے تھے اور جب آنحضرت ﷺ غسل فرماتے تو یہ پردہ کے لئے کھڑے ہوتے تھے، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے حبشہ کو بھی ہجرت کی تھی اور پھر مدینہ کی بھی ہجرت کی بدر اور دوسرے غزوات و مشاہد میں آنحضرت ﷺ کے ساتھ رہے، آنحضرت ﷺ نے ان کو جنت کی بشارت کی تھی اور فرمایا تھا میں اپنی امت کے لئے وہ چیز پسند کرتا ہوں جو ابن ام عبد ( عبداللہ بن مسعود ) کو پسند ہے اور میں اپنی امت کے حق میں اس چیز کو ناپسند کرتا ہوں جو ام عبد کو ناپسند ہے ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو مسلمانوں کی تعلیم و تربیت کے لئے کوفہ بھیجا تھا ، وہاں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین کرام کی ایک بڑی جماعت آپ کے علوم سے سیراب ہوئی ، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں مدینہ منورہ آگئے تھے اور مدینہ ہی میں ٣٢ھ میں وفات پائی ، اس وقت ان کی عمر کچھ اوپر ساٹھ سال تھی ان سے روایت حدیث کرنے والوں میں صحابہ و تابعین کی ایک بڑی جماعت کے علاوہ حضرت ابوبکر ، حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہم بھی شامل ہیں ، ہمارے ائمہ کا کہنا ہے کہ خلفائے اربعہ کے استثناء کے بعد تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سب سے بڑے فقیہہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ہی تھے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم مسائلِ شرعیہ معلوم کرتے تھے، کوفہ شہر میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ قرآن وحدیث اور فقہ اسلامی کے حلقے مشہور ہوئے ، حضرت علقمہ بن قیس کوفی اور حضرت اسودبن یزید کوفی ، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے خاص شاگرد ہیں ، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ خود فرماتے تھے کہ جو کچھ میں نے پڑھا لکھا اور حاصل کیا وہ سب کچھ علقمہ کو دیدیا، اب میری معلومات علقمہ سے زیادہ نہیں ہے، حضرت علقمہ اور حضرت اسود کے انتقال کے بعد حضرت ابراہیم نخعی کوفی مسند نشین ہوئے اور علم فقہ کو بہت کچھ وسعت دی یہاں تک کہ انھیں "فقیہ ِعراق" کا لقب ملا، حضرت ابراہیم نخعی کوفی کے زمانے میں فقہ کا غیر مرتب ذخیرہ جمع ہوگیا تھا جو ان کے شاگردوں نے خاص کر حضرت حماد بن سلیمان کوفی نے محفوظ کررکھا تھا، حضرت حماد کے اس ذخیرہ کو امام ابوحنیفہ نعمان بن ثابت کوفی نے اپنے شاگردوں خاص کر امام ابو یوسف، امام محمد اور امام زفر کو بہت منظم شکل میں پیش کردیا جو انہوں نے باقاعدہ کتابوں میں مرتب کردیا، یہ کتابیں آج بھی موجود ہیں، اس طرح امام ابوحنیفہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے دو واسطوں سے حقیقی وارث بنے ، امام ابوحنیفہ نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے علوم کی روشنی میں نے جو قرآن وسنت کو سمجھا تھا ، اس کو عام روز مرہ کی زندگی کے احوال کی ترتیب پر فقہ اسلامی کی شکل میں مدون و مرتب کرکے امت مسلمہ پہنچایا (اور اللہ تعالی نے ان ابواب کی ترتیب کو ایسی مقبولیت دی کہ بعد کے دور میں ہر اس امام جس نے فقہ اور حدیث پر کتاب تالیف کی ، اس نے ابواب فقہ کی ترتیب سے اپنی کتاب کو مرتب کیا ، گویا انکی کتب فقہ حنفی کی مرہون منت بنی)۔
غرض کہ فقہ حنفی کی تدوین اُس دور کا کارنامہ ہے جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیر القرون قرار دیا اور یہی وہ دور ہے جب امام ابن شہاب زہری ایک طرف الفاظ حدیث کی تدوین و ترتیب میں مصروف تھے تو دوسری طرف امام ابوحنیفہ اپنے اساتذہ کی ہدایات کی روشنی میں احکام حدیث کی ترتیب و تدوین میں مشغول تھے ،ان دونوں کام کے ذریعے اللہ تعالی نے احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم مکمل حفاظت کتابی شکل کروادی۔
بعض ناواقف حضرات فقہ کا ہی انکار کرنا شروع کردیتے ہیں حالانکہ قرآن وحدیث کو سمجھ کر پڑھنا اور اس سے مسائل شرعیہ کا استنباط کرنا فقہ ہے، نیز قرآن وحدیث میں متعدد جگہ فقہ کا ذکر بھی وضاحت کے ساتھ موجود ہے، مشہور کتب حدیث (بخاری، مسلم، ترمذی، ابوداوٴد، نسائی، ابن ماجہ، طبرانی، بیہقی، مسند ابن حبان، مسند احمد بن حنبل وغیرہ) کی تالیف سے قبل ہی امام ابوحنیفہ کے شاگردوں نے فقہ حنفی کو کتابوں میں مرتب کردیا تھا، اگر واقعی فقہ قابل رد ہے تو مذکورہ کتبِ حدیث کے مصنفوں نے اپنی کتاب میں فقہ کی تردید میں کوئی باب کیوں نہیں بنایا؟ یا کوئی دوسری مستقل کتاب فقہ کی تردید میں کیوں تصنیف نہیں کی؟ غرض یہ کہ نادان سے بحث کرنا فضول ہے ، سارے ائمہ کرام کے ہاں قرآن وحدیث کو سمجھ کر مسائل کا استنباط کرنا ہی فقہ کہلاتا ہے اور اسے جمہور محدثین ومفسرین وعلماء امت نے تسلیم کیا ہے۔
فقہ حنفی کا یہ خصوصی امتیاز ہے کہ سابقہ حکومتوں (خاص کر عباسیہ وعثمانیہ حکومت) کا ۸۰ فیصد قانونِ عدالت وفوجداری فقہ حنفی رہا ہے اور آج بھی بیشتر مسلم ممالک کا قانون عدالت فقہ حنفی پر قائم ہے، جو قرآن وحدیث کی روشنی میں بنائے گئے ہیں، اس تحریر کو پاکستان کے دوسرے بڑے مفتی اعظم حضرت مولانا مفتی ولی حسن ٹونکی رحمہ اللہ کے ملفوظ پر ختم کرتا ہوں :
فقہ حنفی انٹر نیشنل (بین الاقوامی) فقہ ہے اور اس کا یہ امتیاز ہے کہ یہ بارہ صدیوں تک سرکاری سطح پر امت کی خدمت کرتی رہی ہے ، اس میں رہتی دنیا تک آنے والے انسانوں کے لئے رہنمائی موجود ہے۔
*ناشر: دارالریان کراتشی*
Comments
Post a Comment